مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ناخوش ہے وہ جب ہنستے ہیں تو باپ کو غصہ آتا ہے کہ مجھے ناخوش کیا ہوا ہے اور نالائق ہنس بھی رہے ہیں۔ جن بندوں نے اللہ کو راضی کیا ہوا ہے اور جو اللہ کو ناخوش نہیں کرتے ، اپنی آرزوؤں کو توڑدیتے ہیں لیکن اللہ کے قانون کو نہیں توڑتے ان کے ہنسنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور جو غافل اور نافرمان ہیں ان کی ہنسی بھی اللہ کو ناپسند ہے دونوں کے ہنسنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اسی پر میرا شعر ہے ؎ غافل کی ہنسی اور ہے ذاکر کی ہنسی اور اور میرادوسرا شعر ہے ؎ دل ہے خنداں جگر میں ترا درد و غم تیرے عاشق کو لوگوں نے سمجھا ہے کم حضرت حکیم الاُمت مجدد الملت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں اکثر متکبر ہوتے ہیں اور فرمایا کہ ہنستا بولتا آدمی اچھا ہےاس میں تکبر نہیں ہوتا۔ میں بھی بچپن سے خاموش طبع ، فکر مند جو ہر وقت کچھ سوچتا رہتا ہو ایسے لوگوں سے دور بھاگتا تھا۔ مجھے بھی خوش طبع اور ہنسنے بولنے والے لوگوں سے مناسبت ہوتی ہے۔ زیادہ خاموش اور سنجیدہ قسم کے لوگوں سے وحشت ہوتی ہے ۔ ایک شخص خوب ہنستا بولتا رہتا ہے لیکن جب کوئی حسین شکل سامنے آتی ہے نابینا بن جاتا ہے آنکھ بند کرلیتا ہے ۔ نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا ؎ جب آگئے وہ سامنے نا بینا بن گئے جب ہٹ گئے وہ سامنے سے بینا بن گئے ایک گناہ نہیں کرتا بتائیے یہ شخص اچھا ہے یا وہ جو بالکل خاموش آنکھیں بند کیے باخدا بنا ہوا ہے لیکن جیسے ہی کوئی کشتی نظر آئی ناخدا بن گیا اور سوار ہوگیا یعنی بدنگاہی کرنے لگا۔ اکثر وہ لوگ جو سنجیدہ اور مقدّس بنتے ہیں کسی سے بات نہیں کرتے تجربہ ہے کہ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ ؎