مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا سےمعلوم ہوا کہ صرف رفاقت کافی نہیں حسنِ رفاقت مطلوب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے حُسنِ رفاقت میں کوئی کمی ہے اور وہ کمی کیا ہے ؟ مثلاً شیخ کے ارشادات پر عمل نہ کرنا۔بے برکتی کا سبب بے عملی اور بے فکری ہے۔ شیخ نے مشورہ دیا کہ غصہ نہ کرنا مخلوقِ خدا پر رحمت وشفقت کرنا تو شیخ کی بات کو مان لو اور زندگی بھر غصہ کو قریب نہ آنے دو۔ اگر شیخ کے مشوروں پر عمل کی توفیق نہیں تو وہ فیض یافتۂ صحبت نہیں ہے خواہ وہ لاکھ دعویٰ کرے کہ مجھے فیضِ صحبت حاصل ہے لیکن اگر تمہارے قلب میں نسبت مع اللہ کا دریا بہہ رہا ہے تو مغلوبیتِ نفس کی خاک کیوں اڑ رہی ہے ؟ یہ غصے سے تمہارا مغلوب ہوجانا دلیل ہے کہ دل اللہ کے تعلقِ خاص سے محروم ہے کیوں کہ اللہ کی محبت کی لازمی علامت تواضع اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ؎ کہ یہ لوگ مؤمنین کے لیے بچھے جاتے ہیں، تواضع سے پیش آتے ہیں۔جس شاخ میں پھل آجاتا ہے وہ جھک جاتی ہے اور یہ تمہارا اکڑ کے چلنا اور ہر کسی سے لڑنا اور ہر وقت طبیعت سے شکست کھا کر گر پڑنا دلیل ہے کہ تمہارے اندر اللہ کی محبت کی کمی ہے اور شیخ کا فیضِ صحبت تمہیں نہیں ملا اور ملا تو بہت ہی کم ملا۔ شیخ کے فیض کے جذب کی صلاحیت دو چیزوں سے ملتی ہے:نمبر۱) ذکر اللہ پر مداومت نمبر ۲) تقویٰ پر استقامت ۔ ذکر اللہ سے حیاتِ ایمانی ملتی ہے اور فیض زندوں کو پہنچتا ہے مردہ آدمی کو فیض کیا پہنچے گا۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ ذاکر مثل زندہ کے ہے اورغیر ذاکر کی مثال مردہ کی سی ہے۔ ملّا علی قاری فرماتے ہیںفَاِنَّ مُدَاوَمَۃَ ذِکْرِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَایَمُوْتُ تُوْرِثُ الْحَیَاۃَ الْحَقِیْقِیَّۃَ الَّتِیْ لَا فَنَاءَ لَھَا؎ ذکر پر مداومت مورث ہے حیاتِ حقیقی کی جس کو کبھی فنا نہیں۔ جو ذکر نہیں کرتا وہ مثل مردہ کے ہے اور جذبِ فیضِ شیخ سے محروم رہتا ہے۔ صحبت یافتہ ہونے کے باوجود جن کو فیض نہیں ملا اس کے دو سبب ہیں:نمبر ۱) اللہ کو یاد نہ کرنا (۲) تقویٰ سے نہ رہنا یعنی گناہ سے نہ بچنا۔ ہر شخص کو صحبت کا فیض بقدرِ مجاہدہ کے ہوتا ہے۔ اگر تِل کو گلاب کے پھولوں میں ------------------------------