مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کنواں کھودا جاتا ہے تو سب سے پہلے سوکھی مٹی ملتی ہے، اس میں پانی کا نشان تک نہیں ہوتا لیکن اہلِ تجربہ پر یقین کرتے ہوئے وہ مایوس نہیں ہوتا، سوکھی مٹی نکالتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد جب مٹی میں تھوڑی تھوڑی نمی آتی ہے تو خوش ہوجاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی منزل اب قریب آرہی ہے۔ پھر اس کے بعد ایک وقت آتا ہے کہ کیچڑ آنے لگتی ہے یعنی پچاس فیصد مٹی اور پچاس فیصد پانی اس وقت اہلِ تجربہ کہتے ہیں کہ ابھی اس پر قناعت نہ کرنا، ابھی اور کھدائی کرو، ابھی اور مجاہدہ ومحنت کرو یہاں تک کہ پھر بالکل صاف پانی آجاتا ہے۔ یہ چار منازل ہوئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو یہ مضمون عطا فرمایا کہ سلوک میں بھی یہی چار راستے ہیں۔ شروع شروع میں سالک کو اللہ کا نام لینے میں کچھ مزہ نہیں آتا، خشک مٹی کی طرح بے کیفی ہوتی ہے لیکن مرشد کے ارشاد پر یقین کرتے ہوئے مجاہدہ کرکے بہ تکّلف وہ اللہ کا نام لیتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد ایک زمانہ آئے گا کہ اللہ کے دریائے قرب کی لذت کی تھوڑی تھوڑی نمی آنے لگے گی، اس وقت سالک خوش ہونے لگتا ہے کہ منزل قریب ہے۔ پھر ایک زمانہ آئے گا کہ آدھا پانی اور آدھی مٹی آنے لگتی ہے۔ یہ وہ منزل ہے کہ سالک مست ہوجاتا ہے اگر چہ اللہ کے قرب کا آب صاف ابھی نصیب نہیں ہوا، کیوں کہ اس کا نورِ طاعت ابھی ظلماتِ معاصی سے ممزوج ہے، کچھ اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہے اور کچھ نفس کی بات بھی مانتا ہے۔ یہ کیچڑ والا زمانہ ہے۔ ابھی پانی اور مٹی مخلوط ہے، اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کا پاک جرعہ ابھی نہیں ملا لیکن یہ حالت بھی سالک کو مست کررہی ہے ؎ جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندانم چوں کند یہ مولانا رومی ہیں، بہت بڑے شخص ہیں، فرماتے ہیں کہ اے سالکینِ کرام !مٹی ملا ہوا گھونٹ تمہیں مست کررہا ہے تو جس دن تم صاف پانی پیو گے تو تمہارا کیا حال ہوگا۔ یعنی ابھی اپنی نیکیوں سے تم مست ہورہے ہو جب کہ تمہاری نیکیوں میں ابھی گناہوں کی آمیزش ہے، تمہارے دریائے قرب کے پانی میں ابھی گناہوں کی مٹی ملی ہوئی ہے، یہ