مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ایسی ہے جیسے کچا کباب کہ اس میں لونگ الائچی گرم مسالہ سب پڑا ہوا ہے لیکن تلا نہیں گیا ، شکل تو اس کی کباب کی سی ہے لیکن اس میں خوشبو اور ذائقہ نہیں آئے گا جو اس کو کھائے گا تھو تھو کرے گا اور کہے گا کہ ؎ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں بھی نہ نکلا ہم تو سمجھتے تھے کہ مولویوں سے اللہ کی خوشبو ملتی ہے، توبہ توبہ یہاں تو الٹا ہی معاملہ ہے۔ اس کے علم اور عمل میں فاصلے ہوں گے۔ اور جو مولوی اللہ والوں کے سامنے اپنے نفس کو مٹادے، اپنی اصلاح کرالے وہ ایسا ہے جیسے تلا ہوا کباب کہ اس کی خوشبو سے کافر بھی کہتا ہے کہ بوئے کباب مارا مسلماں کرد، اس کباب کی خوشبو تو مجھے مسلمان کیے دے رہی ہے۔ جدھر سے کوئی اللہ والا گزرتا ہے تو کافر بھی کہتا ہے کہ کوئی اللہ والا جارہا ہے۔ ان ہی علماء کی خوشبو اڑی ہے، اُمت کو ان ہی علماء سے فیض ہوا ہے جنہوں نے اللہ والوں کی جوتیاں اٹھائی ہیں ۔ تاریخ اس پر شاہد ہے اور ایک مثال اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو عطا فرمائی کہ کہیں ایک خیمہ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے خیمۂلیلیٰ لیکن اندر جھانک کر دیکھا تو کتا بندھا ہوا ہے ، بس یہی حال ہے ان غیر صحبت یافتہ غیر تربیت یافتہ لوگوں کا کہ اوپر تو لیبل مولوی کا لگا ہوا ہے لیکن مولیٰ دل میں ہے نہیں کیوں کہ مولیٰ والوں سے مولیٰ کی محبت اور یقین اور احسانی کیفیت حاصل نہیں کی تو جب ان خیموں میں جھانکتے ہیں تو کہتے ہیں یہاں خیمہ کے اندر تو قربانی کی کھال رکھی ہوئی ہے۔ امت حیران ہوتی ہے کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ ان کے دل میں اللہ ہے لیکن ان کے اخلاق اور اعمال سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ دل میں دنیا ہے۔ جن کو اہل اللہ کی خدمت میں جاتے ہوئے عار آتی ہے ان کو قربانی کی کھالوں کے لیے اور چندوں کے لیے مال داروں کی خوشامد کرتے ہوئے عار نہیں آتی ، یہ اہل اللہ سے استغناء کا وبال ہے۔ میرے بیٹے مولانا مظہر صاحب کے پاس فون آیا کہ گائے کی کھال تیار رکھی ہوئی ہے ، کوئی آدمی بھیج دیجیے تو مولانا مظہر نے کہا کہ کیا آپ آدمی نہیں ہیں جو آدمی مانگ رہے ہیں۔یہ کہنے کے لیے بھی بڑا دل گردہ