مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
واستقبالاً ہم تم سے پیار کریں گے۔ ہم ایک دفعہ جس سے پیار کرتے ہیں ہمیشہ کے لیے پیار کرتے ہیں، ہم بے وفاؤں سے پیار ہی نہیں کرتے کیوں کہ ہمیں مستقبل کا بھی علم ہے کہ کون آیندہ ہم سے بے وفائی کرے گا اور کون باوفا رہے گا۔ ہم پیار اسی کو کرتے ہیں جو ہمیشہ باوفا رہتا ہے یا اگر کبھی بوجۂ بشریت کے اس کی وفاداری میں کوئی کمزوری بھی آئے گی اور اس سے کوئی خطا بھی ہوجائے گی تو وہ پھر توبہ کرکے باوفا ہوجائے گا، توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہوتا۔ اور یہ بات دنیا کی ہر محبت کے مشاہدات میں بھی موجود ہے جیسے بچہ ماں کی چھاتی پر پاخانہ پھر دیتا ہے تو کیا ماں اس کو دھوکر پھر پیار نہیں کرتی؟ اور کیا پھر وہ دوبارہ پاخانہ نہیں پھرتا ؟ ماں کو یقین ہوتا ہے کہ یہ پھر پھرے گا مگر وہ اپنی شفقت سے نہیں پھرتی حالاں کہ یقین سے جانتی ہے کہ یہ ہگتا رہے گا مگر محبت کی وجہ سے عزم رکھتی ہے کہ میں دھوتی رہوں گی۔ تو کیا اللہ تعالیٰ کی محبت ماں کی محبت سے کم ہے۔ ماؤں کو محبت کرنا تو انہوں نے ہی سکھایا ہے۔ لہٰذا ہمیں حکم دے دیا اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ تم اپنے رب سے بخشش مانگتے رہو۔ کیوں ؟ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا؎ کیوں کہ تمہارا رب بہت بخشنے والا ہے، غَافِرْ نہیں ہے غَفَّارْ ہے کَثِیْرُ الْمَغْفِرَۃِ ہے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی ورنہ معافی کا حکم کیوں دیتے ۔ اگر ہم معصوم ہوتے تو اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ نازل نہ ہوتا۔ چوں کہ صدورِ خطا کا معاملہ یقینی تھا اس لیے استغفار کا حکم نازل ہوا۔ لہٰذا ماضی کے گناہوں سے معافی مانگو اور آیندہ کے لیے توبہ اور عزم مصمم کرو کہ آیندہ کبھی یہ گناہ نہ کروں گا۔ لاکھ بار خطائیں ہوجائیں لیکن جو توبہ کرتا رہتا ہے یہ علامت ہے کہ یہ بندہ حال میں بھی محبوب ہے اور مستقبل میں بھی اللہ کا محبوب رہے گا۔ جو مستقبل میں بے وفائی کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ محبوب ہی نہیں بناتے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو مرتد ہوئے وہ پہلے ہی سے خدا کے مبغوض تھے اگر چہ حالتِ اسلام ظاہر کررہے تھے لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ وہ مرتد ہوجائیں گے لہٰذا وہ اللہ کے دائرۂ محبوبیت میں داخل ہی نہیں ہوئے ------------------------------