مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
کی شہرت ہے کیا ہم ان سے تعلق کرلیں۔ میں نے کہا کہ ان کا کوئی بابا بھی ہے ؟ کہا کہ بابا تو کوئی نہیں، کسی مربی سے ان کا تعلق نہیں۔ میں نے کہا کہ لَاتَاْخُذُوْہُ بَابًا مَنْ لَّا بَابَا لَہٗ اس جملہ سے وہ بہت محظوظ ہوئے اور کہا کہ آپ نے بہت بہترین اصول بتادیا ۔لہٰذا جس کا کوئی مربّی نہ ہو جس نے اپنا کسی کو شیخ اور بڑا نہیں بنایا وہ ہر گز اس قابل نہیں کہ دوسروں کی تربیت کرے۔ جب اپنی ہی اصلاح نہیں کرائی تو دوسروں کی اصلاح کیسے کرسکتا ہے۔ 3) جس مربّی کی تربیت وعلاج سے اکثریت شفایاب ہو، اکثر کی حالت اچھی ہو، کچھ گندے انڈے نکل جائیں تو مضایقہ نہیں لیکن اکثریت کی حالت سنت کے مطابق ہو تو سمجھ لو یہ مربّی صحیح ہے۔ اور اگر اس کے ستر فیصد مریض قبرستان آباد کریں تو اس سے دور بھاگو کہ ممکن ہے آپ بھی ان ستر فیصد میں شمار نہ ہوجائیں۔جس کے اکثر مریدوں کی حالت سنت وشریعت کے مطابق نہ ہو وہ شیخِ کامل نہیں اس سے دور رہو۔ 4) سب سے اہم چیز صحبت ہے۔ جس نے اپنے شیخ کی زیادہ صحبت اٹھائی ہو چاہے علم کم ہو، بقدرِ ضرورت علم رکھتا ہو ایسا مربّی قابلِ اعتبار ہے۔ صحبت زیادہ اور علم بقدرِ ضرورت رکھتا ہو وہ صحیح راہ نمائی کرسکتا ہے، اور علم زیادہ لیکن صحبت کم اٹھائی ہو ایسا شخص راہ نمائی کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔ میرے مرشد حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھےکہ یک من علم را دہ من عقل باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے اور عقل میں سلامتی بدون اہل اللہ کی صحبت کے نہیں آتی ۔ غیر صحبت یافتہ یا جس نے صحبت کم اٹھائی وہ اپنے نفس کے مکرو کید کو قرآن وحدیث سے ثابت کرے گا۔ اپنے نفسانی غصے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے ملائے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی دین کے لیے غصہ آتا تھا، جب چندہ مانگے گا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملائے گا، اپنے ہر عمل کو سنت سے ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کو اپنے نفس کے مکائد کا علم بھی نہ ہوگا۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ اپنے مدرسے میں بھی ایسے استاد کو رکھو جو کسی شیخ سے تعلق رکھتا