مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اللہ میں مشغول ہو وہ اللہ کا مرید نہیں اس ظالم کو پتا بھی نہیں کہ اللہ کے وفادار عاشقوں سے اس کا خروج ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے عاشقوں کی شان بیان فرمائی یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ میرے خاص بندے مجھے یاد کرتے ہیں اور بہ اندازِ عاشقانہ یاد کرتے ہیں۔یَدۡعُوۡنَ کے بعد رَبَّہُمۡ کا نزول بتارہا ہے کہ میرے عشاق اپنے پالنے والے کا ذکر محبت کی آمیزش کے ساتھ کرتے ہیں جیسے ماں باپ کا ذکر بچے محبت سے کرتے ہیں کیوں کہ پالنے والے سے محبت ہوتی ہے۔ یہاں لفظ رب کا نزول معانی کے اعتبار سے کوزے میں سمندر کا مصداق ہے، اس جملۂخبریہ میں انشائیہ پوشیدہ ہے کہ اپنے رب کو محبت سے یاد کرو۔اور یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ میں محبت کی بجلی کا مثبت تار لگادیا کہ ہمارا ذکرو عبادت کرو۔ اور یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗمیں منفی تار لگادیا کہ ہماری رضا کا ارادہ کرو جس میں ہماری ناراضگی وناخوشی کے کاموں سے بچنا شامل ہے تاکہ ان دو تاروں سے مل کر ہمارے بندوں کے دلوں میں ایمان کا معمولی چراغ نہیں ایمان کا آفتاب روشن ہوجائے۔ اللہ کے عاشقین کو معمولی چراغ نہیں ملتا ان کو خالقِ آفتاب ، خالقِ ماہتاب ملتا ہے۔ سورج اور چاند کی روشنی ان کو لوڈ شیڈنگ معلوم ہوتی ہے۔ اور یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗکا جملۂ خبریہ بھی جملۂ انشائیہ رکھتا ہے۔ کوئی حسین اگر اپنے عاشقوں کی علامت جملۂ خبریہ سے بیان کرے تو دوسرے عاشقوں کو اس میں جملۂ انشائیہ ملے گا یا نہیں ؟ پس یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗمیں اشارہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو حالا ً واستقبالاً اپنا مراد بنائیں کوئی کام ایسا نہ کریں جس سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوں چاہے اس کام سے ہمیں کتنی ہی خوشی ملتی ہو۔ اگر ایک کروڑ فرینک کا فائدہ ہو لیکن اس میں اللہ کی نافرمانی کرنی پڑتی ہو تو ایک کروڑ فرینک پر لات مار دو، اس ایک کروڑ فرینک پر پیشاب کرنا بھی اپنی توہین سمجھو۔ پس ہم سب اس کو خوب سمجھ لیں کہ جس لمحہ ہماری آنکھیں، ہماری زبان، ہمارے کان اللہ کی کسی نافرمانی اور ناخوشی میں مبتلا ہیں اس وقت ہم یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗنہیں ہیں،اس لمحہ ہم اللہ سے نامراد اور غیر اللہ سے بامراد ہیں اور غیر کا کنکشن اور رابطہ مغضوب اور ضالین سے ہے اور ایسے شخص کو غضبِ الٰہی سے پالا