مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
لذت چرالیتا ہے۔ ہر وقت اس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اصلی پاسِ انفاس یہ ہے ۔ یہ سفر جو آپ نے کیا ہے کوئی افریقہ سے آیا ہے، کوئی ری یونین سے، کوئی پاکستان سے ، بتائیے آپ کس لیے آئے ہیں ؟ اللہ ہی کے لیے تو آئے ہیں لہٰذا یہ سبق سیکھ لیجیے کہ ایک لمحہ کے لیے حرام لذت قلب میں در آمد نہ ہونے پائے۔ میں وہی سکھا رہا ہوں جو میں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے اور بڑی مصیبت سے سیکھا ہے لیکن اللہ نے وہ مصائب آسان فرمادیے، میری خانقاہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر ان کو صبح چائے نہ ملے تو کہتے ہیں سر میں درد ہوگیا۔ آپ اندازہ لگائیے کہ جس نے اللہ کی محبت اس طرح سیکھی ہو کہ صبح سے ایک بجے تک بغیر ناشتہ کے رہا ہو اور ایک مہینہ دو مہینہ کے لیے نہیں تقریباً دس سال تک ۔شیخ کی ایسی محبت میرے دل کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی کہ تمام مجاہدے آسان ہوگئے۔ اگر محبت نہ ہوتی تو بھاگ جاتا کہ یہ کیسی خانقاہ ہے جہاں پیٹ کا انتظام ہی نہیں لیکن جب شیخ کو ایک نظر دیکھتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ حاصلِ کائنات مل گیا ؎ وہ اپنی ذات سے خود انجمن ہے اگر صحرا میں ہے پھر بھی چمن ہے حضرت شہر سے دور رہتے تھے مگر وہ گلستاں معلوم ہوتا تھا۔ توساری دنیا کی خانقاہوں میں جا کر پوچھیےکہ پاسِ انفاس کیا ہے؟ وہ یہی کہیں گے کہ ہر سانس میں ذکر شامل ہو، سانس جب اندر جائے اور جب باہر آئے تو ذکر کے ساتھ ہو مگر تھانہ بھون کی خانقاہ کا اعلان ہے کہ اس زمانے میں صحت اب ایسی نہیں ہے کہ کوئی اس کو کرسکے، دماغ میں خشکی بڑھ جائے گی، کچھ دن کے بعد نیند کم ہوجائے گی پھر غصہ آنے لگے گا، پھر بیوی بچوں سے لڑائی شروع ہوجائے گی، گاہکوں سے بھی لڑنے لگے گا، غیر شعوری طور پر یہ غیر معتدل ہوجائے گا اور اس کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ میں کہاں جارہا ہوں، اور غیر معتدل انسان صاحبِ نسبت نہیں ہوسکتا لہٰذا ہر شیخ کو تھوڑا سا طبیب بھی ہونا چاہیے کہ مرید کی صحت کا محافظ ہوسکے۔ حکیم الاُمت مجددِ زمانہ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں ذکر پاس