مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
اور شہید کے خون کے برابر کیوں وزن کیا جائے گا؟ کہاں یہ پانی اور کہاں شہید کا خون ! مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ندامت کے یہ آنسو پانی نہیں ہیں یہ جگر کا خون ہے جو خوفِ خدا سے پانی ہوگیا ہے۔ ہر مجلس میں اختر جو بات پیش کررہا ہے یہ حاصلِ سلوک اور اولیائے صدیقین کی جو آخری سرحد ہے اس مقام تک پہنچانے والی ہے۔ جان لو ، مان لو اور ٹھان لو کہ ایک لمحہ کو خدا کو ناراض نہیں کرنا ہے۔ گناہ نہ کرنے سے بالفرض اگر جان جاتی ہے تو جان فدا کردو ۔ میرا ایک شعر ہے ؎ نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے مبارک ہے وہ جان جو اللہ پرفدا ہو، مبارک ہے وہ جوانی جو خدا پر فدا ہو، مبارک ہیں وہ آنکھیں جو اللہ کے خوف سے اشک بار ہیں۔باقی جتنے کام خدا کی مرضی کے خلاف ہیں وہ مؤمن کے لیے خسارہ ہیں۔ بس میری سارے عالم میں یہی صدا ہے کہ اللہ کے لیے اللہ کو خوش رکھو اور ایک لمحہ بھی اپنے مالک کو نا خوش کرکے حرام خوشی اپنے قلب ونفس میں نہ لاؤ۔ یہ غیرتِ بندگی کے بھی خلاف ہے، حیا کے بھی خلاف ہے، شرافت کے بھی خلاف ہے، اللہ کو ناراض کرکے اپنے نفس میں حرام خوشی لانے والے سے بڑھ کر کوئی بے غیرت، کمینہ، ناشکرا اور بین الاقوامی احمق نہیں ہے کیوں کہ اتنی بڑی طاقت والے مالک کو ناراض کرکے اپنے نفس دشمن کو خوش کررہا ہے۔ اگر اللہ کی صفت ذوالانتقام کا ظہور ہوجائے تو یہ کیا کرسکتا ہے ۔ کیا صفات ِالہٰیہ کے ظہور کے لیے اللہ تعالیٰ اس سے مشورہ کرے گا؟ اور جیسے ہی گناہ کا ارادہ کرتا ہے اس کی دوزخ اسی وقت سے شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بے وقوف سمجھتا ہے کہ میں حسینوں اور نمکینوں کو دیکھ کر مزے اُڑارہا ہوں لیکن اسے معلوم نہیں کہ یہ نالائق اپنی زندگی کو عذاب اور دوزخ میں ڈال رہا ہے، اپنے پیر میں خود کلہاڑی مار رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظَلَّامٌ لِّلْعَبِیْدنہیں ہے ،یہ خود ہی اپنی جان پر ستم ڈھارہا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جو گناہوں پر اصرار کرتا ہے اور استغفار وتوبہ سے تلافی نہیں کرتا یہ اپنی ذات سے خود دوزخ ہے۔ کیا پیارا شعر فرمایا ؎