مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
تب دودھ پیتا ہے، اگر تم حق تعالیٰ سے دور رہو گے تو اپنے رب کے فیضان، اپنے رب کی رحمت اور الطاف وکرم وعنایات سے محروم رہو گے اور اللہ کو چھوڑ کر جن پر جان دیتے ہو یہ عاجز ہیں۔ یہ خود اپنی سلامتیٔ اعضاء پر قادر نہیں۔ اگر ان کا گردہ فیل ہوجائے تو کوئی حسین اپنا گردہ ٹھیک نہیں کرسکتا تو تم کیوں اپنا دل گردہ ان پر خراب کرتے ہو۔ غیر اللہ سے جان چھڑا کر ہمہ وقت اللہ پر فدا رہنا اس کا نام استقامت ہے۔ تو یہاں بھی رَبُّنَا اللہُمیں رَبُّنَا خبرِ مقدم ہے دراصلاَللہُ رَبُّنَا تھا لیکن خبر کو مقدم کردیا تا کہ حصر کے معنیٰ پیدا ہوجائیں کہ ہمارا پالنے والا صرف اللہ ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ ہم رَبُّنَا کو کیوں نہ مبتدا مان لیں، ہم اس کو خبرِ مقدم کیوں مانیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قانونِ نحو کے مطابق یہ صحیح نہیں ہوگا کیوں کہ علمائے نحو کا اجماع ہے کہ مبتدا مسند الیہ ہوتا ہے اور مسند الیہ اتنا قوی ہونا چاہیے کہ خبر اس سے سہارا لے سکے، اگر ہم رَبُّنَا کو مبتدا بناتے ہیں تو اللہُ خبر ہوجائے گا اور خبر کا سہارا رَبُّنَا پر ہوگا اور رب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور اللہ اسمِ ذات ہے جو حامل جملہ صفات ہے لہٰذا اللہ کاعظیم الشان اسمِ ذات بھلا کسی صفت کا سہارا ڈھونڈے ! اللہ سے بڑھ کر کوئی اور سہارا نہیں ہوسکتا اور مسند الیہ اور مبتدا سہارا ہوتا ہے لہٰذا قوی سہارا ہوتے ہوئے ضعیف سہارے کی طرف توجہ کرنا قانونِ نحو سے قطع نظرعظمتِ الہٰیہ کے بھی خلاف ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا مقتضا ہے کہ یہاں اللہُ کو مبتدا اور مسند الیہ اور رَبُّنَا کو خبر مقدم کرکے حصر کے معنیٰ پیدا کیے جائیں کہ ہمارا پالنے والا صرف اللہ ہے۔ لہٰذا جب ہم اللہ کے ہیں تو غیر اللہ پر مرنا ہمارے لیے کیسے جائز ہوگا ۔ آنکھ میں روشنی اللہ نے دی ہے تو جہاں وہ خوش ہوں وہاں نظر ڈالیے جہاں وہ ناخوش ہوں وہاں ان کی دی ہوئی روشنی کو استعمال نہ کیجیے ۔ بس حرام خوشیوں سے اپنا دل خوش نہ کیجیے۔ یہ سلوک وتصوف کا حاصل میں پیش کررہا ہوں۔ اپنے احباب سے دردِ دل سے کہتا ہوں کہ ایک لمحہ اللہ کو ناراض کرکے اگر ساری دنیا کی خوشیاں ملتی ہوں تو اللہ تعالیٰ کی ناخوشی کو گوارا نہ کیجیے۔یہ بات جس کو حاصل ہوگئی وہ اولیائے صدیقین کی آخری سرحد پر پہنچ گیا اور اس کو وہ استقامت حاصل ہوگئی جو اس آیت میں مذکور ہے۔