مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ یہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسا حاملِ کیفیتِ احسانیہ قیامت تک کوئی نہیں آئے گا لہٰذا اب کوئی شخص صحابی نہیں ہوسکتا۔ اس حدیثِ پاک میں سرور ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا کہ تمہارا اُحد کے برابر سونا خرچ کرنا اس کیفیتِ احسانیہ کے ساتھ نہیں ہوگا جس کیفیتِ احسانی سے میرا صحابی ایک مد جَو اللہ کے راستے میں دے گا۔ اور کیفیتِ احسانی کیا ہے ؟ اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ؎ قلب کو ہر وقت یہ کیفیتِ راسخہ حاصل ہوجائے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ جس کو یہ کیفیتِ راسخہ حاصل ہوگئی اس کا ایمان بھی حسین ہوجاتا ہے، اس کا اسلام بھی حسین ہوجاتا ہے۔ احسان بابِ افعال سے ہے اور بابِ افعال کبھی معنیٰ میں اسم ِفاعل کے ہوتا ہے۔ احسان معنیٰ میں محسن کے ہے۔معنیٰ یہ ہوئے کہ احسان ایمان کو بھی حسین کردیتا ہے اسلام کو بھی حسین کردیتا ہے ، اس کی بندگی ہر وقت حسین رہتی ہے۔ جس کو ہر وقت یہ استحضار ہو کہ میرا اللہ مجھ کو دیکھ رہا ہے اس کا ایمان حسین نہیں ہوگا؟ اس کو تو ہر وقت حضوری حاصل ہوگی، ایمان بالغیب نام کا ایمان بالغیب رہ جائے گا ۔اور اس کا اسلام بھی حسین ہوجائے گا یعنی اس کی نماز،اس کی تلاوت،اس کا سجدہ سب حسین ہوجائے گا۔ لہٰذا شیخ کے پاس اضافۂ علم کی نیت سے نہ جاؤ ، اس نیت سے جاؤ کہ اس کے قلب کی کیفیتِ احسانی ، اللہ تعالیٰ کا تعلق ، قلب وحضوری ، ہمتِ تقویٰ وایمان ویقین کا اعلیٰ مقام ہمارے قلب میں منتقل ہوجائے۔ نفعِ لازم کی فکر کرو، نفعِ متعدی کی نیت بھی نہ کرو کہ یہ بھی غیر اللہ ہے۔اور نفعِ لازم کو نفع ِمتعدی لازم ہے جیسے کہیں کوئی کباب تَلا جارہا ہے، تلنے سے کباب خود لذیذ ہورہا ہے، نفع لازم حاصل کررہا ہے لیکن اس کی خوشبو جب دور دور پہنچے گی تو لوگ اس کی خوشبو سے مست ہو کر خود دوڑیں گے کہ آہا! ------------------------------