مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
آیت اورکس حدیث میں ہے کہ جائز اور حلال نعمتوں کے چھوڑنے سے اللہ کی ولایت اور دوستی ملتی ہے ؟ ہاں! یہ فرمایا کہ گناہوں کو چھوڑدو تو میرے ولی ہوجاؤ گے اِنْ اَوْلِیَاءُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ میرے ولی صرف وہ ہیں جو گناہوں سے بچتے ہیں ۔ پس جو حلال نعمتیں حرام سے بچنے کا سبب ہوجائیں ان کو چھوڑنا جاہلانہ تصوف ہے ۔ جن جاہل صوفیوں نے نفس کو جائز نعمتیں نہیں دیں اور تنہائی اختیار کی،اللہ والوں کی صحبت میں نہ رہے ان کے نفس نے ان کو ایسا پٹخا ہے کہ قلندر سے بند ر ہوگئے یعنی جانوروں کی طرح حرام حلال کی بھی تمیز نہ رہی۔اس لیے کہتا ہوں کہ سینے میں ہو عشق کا سمندر مگر احباب کے ساتھ رہو مست قلندر پھر نہیں بنو گے بندر۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ لہٰذانفس کو جائز نعمتوں میں ، اللہ والے دوستوں میں خوب مشغول رکھو البتہ جب کسی بستی یا شہر سے گزرو اس وقت عدمِ قصدِ نظر کافی نہیں یعنی دل میں دیکھنے کا ارادہ نہ ہونا کافی نہیں، پھر تو شیطان دکھادے گا بلکہ قصدِ عدم ِنظر کرو یعنی یہ ارادہ کرکے گھر سے نکلو کہ ہم کو دیکھنا نہیں ہے چاہے نفس کو کتنی ہی تکلیف ہو، ہم تکلیف اُٹھالیں گے، اپنے دل کو توڑ دیں گے لیکن اللہ کے قانون کو نہیں توڑیں گے اور عورتوں کو لڑکوں کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔ یہی ایک عمل کرلو اگر اولیائے صدیقین کے آخری مقام تک نہ پہنچو تو کہنا کہ اختر کیا کہہ رہا تھا، نظر کی حفاظت اللہ کے راستے کا غم ہے۔ اس سے دل میں محبت کی اتنی تیز اسٹیم بنتی ہے کہ انسان اُڑجاتا ہے۔ایسے دل پر اللہ کو پیار آتا ہے کہ یہ بندہ میرے لیے کتنا غم اُٹھارہا ہے ، اپنی آرزو کا خون کررہا ہے۔ مجھے راضی کرنے کے لیے اپنے دل کو ویران کررہا ہے۔اللہ کو رحم آتا ہے اور پھر اس کا جوشِ کرم ایسے بندوں کو اولیائے صدیقین کی چھوٹی سرحد تک نہیں آخری مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ بتائیے یہ تصوف مشکل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مجھے ایسا راستہ دکھایا ہے جس سے تصوف آسان ہی نہیں بلکہ لذیذ ہوگیا۔ فَالْحَمْدُ لِلہِ تَعَالٰی وَلَا فَخْرَیَا رَبِّیْ