مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
سے زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب ہوجاتا ہے ۔ لیکن جملہ خبریہ کے بجائے جملہ انشائیہ استعمال فرمانا اس میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ِعبدیتِ کاملہ واظہارِ احتیاجِ بندگی ہے۔ جملہ خبریہ میں دعویٰ ہوجاتا کہ ہم لوگ اس مقامِ محبت پر فائز ہیں۔ لہٰذا جملہ انشائیہ دعائیہ سے آپ نے اس مقامِ محبت کو مانگا اور آپ کو تو یہ مقا م حاصل تھا اُمت کو سکھادیا کہ اس طرح مانگو اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ اے اللہ! آپ ہمیں اپنی محبت اتنی دے دیجیے کہ ہم اپنی جان سے زیادہ آپ سے محبت کریں، ہر لمحہ آپ پرفدا رہیں ، اپنے دل کو توڑدیں آپ کے قانون کو نہ توڑیں ، آپ کو ناخوش کرکے اپنے دل کو خوش نہ کریں وَ مِنْ اَھْلِیْ اور اپنے بال بچوں سے زیادہ آپ سے محبت کریں۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی بچوں کو خوش کرنے کے لیے ہم آپ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کر بیٹھیں اور وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اور حالت ِپیاس میں ٹھنڈے پانی سے جتنا مزہ آتا ہے کہ رگ رگ میں جان آتی ہےاے اللہ! اس سے زیادہ ہم آپ سے محبت کریں۔ جو اللہ کے عاشق ہیں جب وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی رگ رگ میں جان آجاتی ہے اور ان کی جان میں کروڑوں جان آجاتی ہیں۔ اللہ کے عاشق اللہ کے نام سے زندگی پاتے ہیں جیسے پیاسا پانی پی کر اپنی جان میں جان محسوس کرتا ہے۔ جو اللہ کے پیاسے ہیں وہ اللہ کے نام کا شربت ایمان افزا،شربت محبت افزا، شربتِ یقین افزا، شربتِ احسان افزا پیتے ہیں۔ ہمدرد کا شربتِ روح افزا اس کے سامنے بھلا کیا حقیقت رکھتا ہے۔ یہ حدیث تو بخاری شریف کی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی کی قبر کو اللہ نور سے بھردے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملہ انشائیہ کی وجہ بیان کرتے ہیں ’’دیوانِ شمس تبریز‘‘ میں کہ ؎ بجز چیزے کہ دادی من چہ دارم اے اللہ! جو آپ ہمیں دیں گے وہی تو ہم پائیں گے، اگر آپ ہی ہمیں نہ دیں گے، تو ہم کہاں سے لائیں گے، ہم تو آپ کے بھک منگے ہیں، آپ کے فقیر ہیں۔ لہٰذا جو آپ نے دیاہے وہی تو ہمارے پاس ہے ؎