مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نے اللہ سے مانگاکہ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ؎یہ جملہ انشائیہ صورتاً تو جملہ انشائیہ ہے حقیقتاً خبر ہے ۔ علماء حضرات جانتے ہیں کہ عربی قواعد کی رو سے دعا انشاء میں شامل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا الخ تو جملہ خبریہ ہے لیکن سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ خبریہ کی تفسیر جملہ انشائیہ سے کیوں فرمائی؟ اختر زندگی میں آج پہلی دفعہ یہ مضمون بیان کررہا ہے۔ یہ اللہ کی عطا اور بھیک یہاں راستے میں قونیہ سے واپسی پر بہ طفیل مولانا جلال الدین رومی مل رہی ہے۔ ان کا فیض میں محسوس کررہا ہوں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جملہ خبریہ کے بجائے جملہ انشائیہ دعائیہ کیوں استعمال کیا؟ جواب یہ ہے کہ ازراہِ بندگی ، ازراہِ عبدیت جملہ انشائیہ استعمال فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ بندگی اور اپنی عبدیتِ کاملہ پیش کی کہ اے اللہ!اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ کے جملہ خبریہ کے مصداق ہم کہاں ہوسکتے ہیں، اتنی اشد اور عظیم محبت ہم کہاں سے لائیں گے لہٰذا ہم جملہ انشائیہ دعائیہ کے ذریعے آپ کے جملہ خبریہ کی تکمیل کا راستہ اختیار کرتے ہیں تا کہ احتیاج اور بندگی کے راستے سے ہم آپ کی اشد محبت کو مانگ لیں اور جب آپ عطا فرمائیں گے تو اشد محبت کا معیار ہمیں حاصل ہوجائے گا اور آپ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ ، اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ اَھْلِیْ اور اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ہوجا ئیں گے یعنی آپ ہمیں جان سے زیادہ، اہل و عیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ پیار ے ہوجائیں گے اور اس وقت آپ کے کرم سے ہم اَشَدُّ حُبًّا لِّلہْ کے جملہ خبریہ کے مصداق ہوجائیں گے۔ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ انشائیہ حقیقت میں جملہ خبریہ ہے یعنی جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اشد محبت آتی ہے اس کو محبت کے یہ تین معیار حاصل ہوجاتے ہیں اور یہی اشد محبت کے حدود ہیں کہ اللہ اس کے دل میں جان سے زیادہ، اہل وعیال ------------------------------