مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
جلدی سے قلم کاغذ لاؤ پھر مجھے مثنوی الہام ہورہی ہے،اللہ تعالیٰ اپنے دریائے علم سے پھر مجھے کچھ دے رہا ہے جس کی وجہ سے مجھے مثنوی کہنے کا جوش ہورہا ہے ۔مولانا پر تو کیفیت طاری ہوتی تھی جب مثنوی وارد ہوتی تھی تو مولانا حسام الدین ہی اس کو لکھتے تھے ان ہی کی محنت سے مثنوی محفوظ ہوئی ۔ فرماتے ہیں ؎ اے حسام الدین ضیاء الدیں بسے میل می جوشد بہ قسمِ سادسے دفترِ ششم مثنوی کا آخری دفتر ہے اور جس جنگل میں یہ لکھا گیا ہے ہمارے رہبرِ سفر مسٹر صائم ہم لوگوں کو وہاں لے گئے تھے اور بتایا تھا کہ یہ وہ جنگل ہے جہاں مثنوی کا آخری دفتر لکھا گیا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اے حسام الدین! مثنوی کا چھٹا دفتر کہنے کا مجھے جوش اٹھ رہا ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ کچھ دن کے لیے جو میں نے مثنوی لکھنا بند کردیا تھا اس کی وجہ یہ تھی ؎ مدتے درمثنوی تا خیر شد مہلتے بائیست تا خوں شیر شد کچھ دن جو مثنوی بند ہوگئی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ماں مسلسل دودھ پلائے گی تو دودھ کے بجائے خون آنے لگے گا لہٰذا کچھ وقفہ چاہیے کہ اس کا خون پھر دودھ میں تبدیل ہوجائے۔ لہٰذا جب یہ وقفہ مل گیا تو اب علم کا دودھ پھر سینے میں جوش کر رہا ہے پس اس کو لکھ لو اور محفوظ کرلو کہ تم ہی اس کے اہل ہو۔ پھر جوشِ محبت میں مولانا حسام الدین کے لیے فرماتے ہیں کہ اے حسام الدین! میں جو تمہاری تعریف کرتا ہوں تو تمہارے بعض پیر بھائی جو نسبت مع اللہ سے محروم مثل مٹی کے ہیں چہ میگوئیاں کررہے ہیں ؎ قصد کردستند ایں گل پا رہا کہ بپوشانند خورشیدے ترا یہ مٹی کے ڈھیلے جو تمہاری شکایت اور غیبت کرکے چاہتے ہیں کہ تمہارے آفتاب کو اپنی حسد کی مٹی سے چھپادیں پس چوں کہ ؎