مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
آجائے تو یہ نہ کہو کہ حضرت! مجھے ایک بات یاد آگئی۔ میں نے فلاں کتاب میں یہ پڑھا تھا۔ یہ سخت بے ادبی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سید سلیمان ندوی جیسے بڑے بڑے علماء سب خاموش رہتے تھے۔ میر مجلس کے متعلق یہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم کی بارش ہورہی ہے، تم بولو گے تو اس بارش میں دخل انداز ہوگے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فضل میں دخل انداز مت ہو۔ خاموشی سے سنو۔ اسی لیے اللہ نے کان دو دیے ہیں اور زبان ایک دی ہے لہٰذا ایک بولو اور دو سنو یعنی بولو کم اور سنو زیادہ ۔ حکیم الاُمت تھانوی فرماتے ہیں کہ چھوٹا بچہ پیدا ہونے کے بعد پہلے بولتا نہیں ماں باپ کی سنتا ہے پھر اس کے بعد صحیح بولتا ہے اور جو بچہ بہرا ہو ، ماں باپ کی گفتگو نہ سنتا ہو وہ بول نہیں سکتا ، ہر بہرا گونگا ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنے گونگے ہیں سب بہرے ہیں، ان کے کان نہیں ہوتے اور جو کان بنتا ہے اس کو زبان ملتی ہے لہٰذا شیخ کی بات کے لیے سراپا کان بن جاؤ ۔ پھر ان شاء اللہ ایسی زبان عطا ہوگی کہ دنیا حیران ہوگی۔ قونیہ میں مولانا کے اشعار کی یہ شرح بیان ہوئی جس کا اس بس میں دوبارہ مذاکرہ ہوگیا۔ مثنوی الہامی کتاب ہے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار کہنا آسان کام نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہو۔ مولانا پر جب مثنوی وارد ہوتی تھی تو مولانا کے سب سے پیارے مرید اور خلیفہ مولانا حسام الدین اس کو جلد ی جلدی لکھتے جاتے تھے ۔ مولانا رومی کو مولانا حسام الدین سے بے انتہا محبت تھی۔ پوری مثنوی میں جگہ جگہ مولانا نے ان ہی کا نام لیا ہے۔ مولانا ان کی اتنی محبت اور اتنا اکرام کرتے تھے کہ لوگوں کو یہ شبہ ہوتا تھا کہ یہ مولانا کے شیخ ہیں ۔ دیکھیے فرماتے ہیں ؎ اے حسام الدیں ضیائے ذوالجلال اے حسام الدین!تم اللہ کی روشنی ہو۔ یہ پیر کہہ رہا ہے اپنے خلیفہ کے لیے ؎ میل می جوشد مرا سوئے مقال