مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہَلِ امۡتَلَاۡتِ اے جہنم! تیرا پیٹ بھر گیا ؟ تو جہنم کہے گیہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ اللہ میاں! ابھی پیٹ نہیں بھرا،کچھ اور دوزخی لائیے کچھ اور گناہ گار مجھ میں بھریے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ فَیَضَعُ قَدَمَہٗاس وقت اللہ دوزخ پر اپنا قدم رکھ دے گا۔ محدثینِ کرام سےگزارش ہے کہ اس شرح کو ذرا غور سے سنیے ۔ جب آپ یہ حدیث پڑھائیں گے تو ان شاء اللہ اختر کی یہ تقریر کام دے گی۔ فَیَضَعُ قَدَمَہٗ جب دوزخ کہے گی کہ میرا پیٹ نہیں بھرا کچھ اور لائیے تو اللہ تعالیٰ ظالم تھوڑی ہیں کہ بے گناہوں سے دوزخ کو بھردیں، دوزخ پر اپنا قدم رکھ دیں گے فَتَقُوْلُ جَھَنَّمُ قَطْ قَطْ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَطْ قَطْ قَطْ؎ایک روایت میں ہے کہ جہنم دو دفعہ کہے گی بس بس اور ایک روایت میں ہے کہ تین دفعہ کہے گی بس بس بس اللہ میرا پیٹ بھر گیا۔ اور قدم سے مراد اللہ کی تجلیٔ خاص ہے کیوں کہ اللہ قدم سے پاک ہے۔ اب مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ جب دوزخ کا پیٹ نہیں بھرا گناہ گاروں سے تو تمہارا نفس جو دوزخ کی شاخ ہے، برانچ ہے یہ بھی گناہوں سے نہیں بھرے گا، پھر کس چیز سے بھرے گا؟ شہوت کی آگ کس چیز سے بجھے گی ؟ جب گناہوں کی آگ گناہوں سے نہیں بجھ سکتی تو پھر کیا حاصل کرو کہ یہ آگ بجھ جائے ؟ فرماتے ہیں نورِ خدا، اللہ کا نور حاصل کرو اللہ کے نور ہی سے دوزخ کا پیٹ بھرا ، اسی نور سے نفس کا پیٹ بھی بھر جائے گا۔ نور ٹھنڈا ہوتا ہے ، نار گرم ہوتی ہے اور نار کا الف اکڑا ہوا ہے اور نور کا واؤ جھکا ہوا ہوتا ہے لہٰذا جو اہل ِنور ہوتے ہیں وہ جھکے ہوئے، مٹے ہوئے ہوتے ہیں ان میں شانِ تواضع ہوتی ہے، خاکساری ہوتی ہے اور اہلِ نار اکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ پناہ میں رکھے تکبر اہلِ نار کی علامت ہے اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ؎ نار اور نور کی لغت سے یہ مضمون کیسا حل ہوگیا۔ نورِ خدا جب آئے گا تو نارِ شہوت خود بجھ جائے گی ؎ ------------------------------