مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
پس جو اہلِ دل ہیں وہ اپنا دل اللہ کو دیتے ہیں۔ میرا شعر جس کو حضرت مولانا یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بہت زیادہ پسند فرمایا تھا اور بہت زیادہ تعریف فرمائی تھی یہ ہے ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد اہلِ دل وہ ہے جو خدائے تعالیٰ پر دل کو فدا کردے اور دل اسی ذات حق سبحانہٗ وتعالیٰ کو دے دے جس نے ماں کے پیٹ میں دل بنایا ہے۔ یہ کیا کہ دل تو اللہ نے بنایا اور فدا کرتے ہو مٹی کے کھلونوں پر۔اور دل کو خدا پر فدا کرنے کا طریقہ کیا ہے یہ میرے دوسرےشعر میں ہے ؎ ہمنشینی اہلِ دل اہلِ نظر می رساند تا خدائے بحرو بر جو اللہ والوں کی ہمنشینی اختیار کرتا ہے، اللہ والوں کے پاس بیٹھتا ہے ایک دن یہ اللہ کو پاجاتا ہے۔ جو اہل اللہ کا عاشق نہیں وہ اللہ کا بھی عاشق نہیں اور جو اپنے مرشد کا عاشق ہے وہ دراصل اللہ کا عاشق ہے کیوں کہ اللہ ہی کے لیے تو اس سے محبت کررہا ہے۔ چناں چہ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب نے فرمایا تھا کہ جب سلطان نظام الدین کا انتقال ہوا تو امیر خسرو تڑپ گئے کیوں کہ عاشق تھے اور جنازے کو خطاب کرکے یہ شعر پڑھتے جارہے تھے ؎ سر و سمینا بصحرا می روی سخت بے مہری کہ بے مامی روی اے میرے سرو وسیمیں! آج آپ جنگل ( قبرستان) کی طرف جارہے ہیں۔ کیا بے مروّتی ہے کہ آپ مجھ کو چھوڑ کر جارہے ہیں ؎ اے تماشا گاہِ عالم روئے تو اے سلطان نظام الدین! آپ کا چہرہ تو سارے عالم کے لیے تماشا گا ہ تھا ؎