مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اور توبہ کرکے پھر اللہ کی یاد میں لگ جاؤ ۔اس کا ایک راز بتاتا ہوں اور وہ راز صاحبِ قونیہ صاحبِ مثنوی کی زبان سے بتاؤں گا جو یہاں میرے قریب مدفون ہیں۔ فرماتے ہیں ؎ اے بسا زررا سیہ تابش کنند مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! کبھی سونے کو سیاہ تاب کرتے ہیں، کالا کالا رنگ لگادیتے ہیں کیوں کہ چمکتے ہوئے سونے کو نظر لگ جائے گی اور ڈاکو چور اس کو اُٹھا لے جائیں گے۔ انسان کا نفس خود چور ڈاکو ہے اگر ہر وقت نیکیاں ہوں، کبھی خطا نہ ہو اور کوئی بے وقوفی نہ ہوجائے تو اس کو خود اپنی نظر لگ جائے گی کہ ہم بہت ہی اہم ہیں لہٰذا خطا مت کرو بے وقوفی اور حماقت مت کرو لیکن ہونا اور ہے کرنا اور ہے۔ اگر ہوجائے تو اللہ سے استغفار اور توبہ کرلو اور سمجھ لو کہ اللہ نے ہم کو بچالیا کہ ہم اپنی نظر سے گرگئے، اپنی نگاہوں سے گرگئے کہ پڑھ لکھ کر بھی ہم ایسے بے وقوف ہیں۔ لہٰذا عالمِ غیب سے تکویناً کبھی سونے کو سیاہ تاب کردیا جاتا ہے ۔ کیوں؟ ؎ تا شود ایمن ز تاراج و گزند تاکہ وہ ڈاکوؤں سے اور چوروں سے محفوظ کردیا جائے۔ لہٰذا کبھی کوئی بے وقوفی ہوجائے تو ندامت کے ساتھ اپنے اللہ سے معافی مانگ کر سمجھ لو کہ ہم نالائق ہیں۔مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ آں چنیں کردم کہ از من می سزید ہم سے وہی نالائقی ہوئی جس کے ہم لائق تھے جو کچھ ہم سے گناہ ہوا ہم اسی لائق تھے، نالائق سے تو نالائقی ہی ہوگی جو ہم سے ہوگئی اور کتنی زیادہ نالائقی ہوئی کہ ؎ تا چنیں سیل سیاہی در رسید یہاں تک کہ گناہوں کے اندھیرے ہم پر چھا گئے لیکن اب آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔ مکہ کے کافروں نے کہا تھا کہ اب تو مکہ فتح ہوگیا ہے اب آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے بدلہ نہیں لیں گے، وہی معاملہ کریں گے جو بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ تو جب آپ کے