مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
یاد میں رویا کرو۔ مولانا کا مقصد بانسری کی مثال سے یہ تھا کہ ہم اللہ کی یاد میں روئیں۔ بانسری بجانا تو حرام ہے، مولانا جیسا اللہ والا بانسری بجانے کا حکم کیسے دے سکتا ہے۔ بانسری سے تو مولانا نے صرف ایک مثال دی ہے۔ میرے شیخ نے اس شعر کی تشریح میں فرمایا تھا کہ بانسری کو رونا کب نصیب ہوا۔ جب اس کا ایک سرا بجانے والے کے منہ میں ہو اور دوسرا باہر ہو تب بانسری بجتی ہے اسی طرح تم بھی اپنی روح کی بانسری کا ایک سرا کسی اللہ والے کے منہ میں پیش کردو یعنی خود کو اس اللہ والے کے سپرد کردو پھر جب اللہ والا بجائے گا تب بجو گے۔ بانسری خود نہیں بجتی بجائی جاتی ہے۔ بانسری کی صلاحیت کسی بجانے والے کے منہ میں آکر ظاہر ہوتی ہے اسی طرح اللہ والے کی صحبت کی برکت سے تمہارے دل میں جو اللہ تعالیٰ کی محبت پوشیدہ ہے وہ ظاہر ہوجائے گی۔ شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی حکیم الاُمت سے پڑھی تھی یہ ان کی تقریر ہے کہ بانسری خود نہیں بجتی بجائی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب تم خود کو کسی اللہ والے کے سپرد کردو گے پھر اس کے فیض سے تمہارے اندر بھی اللہ کی محبت کا درد پیدا ہوجائے گا کہ خود بھی مست ہوگے اور دوسروں کو بھی مست کروگے۔ اس کے بعد حضرت نے علماء اور دیگر حاضرین کو مثنوی پڑھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ پھر ایک عالم نے بیعت کی درخواست کی۔ حضرتِ والا نے خانقاہ کے ایک گوشے میں ان عالم کو بیعت فرمایا اور ہم سب نے تجدیدِ بیعت کی ۔ بیعت کا خطبہ پڑھ کر اس طرح توبہ کرائی یا اللہ !ہم سب توبہ کرتے ہیں کفر سے، شرک سے، فسق سے، بدعات سے، تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے، خاص کر بدگمانی سے، بدنگاہی سے، غیبت سے،یا اللہ!ہم وعدہ کرتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز جماعت سے سنت کے مطابق پڑھیں گے، رمضان شریف کے روزے رکھیں گے، زکوٰۃ فرض ہوگی زکوٰۃ دیں گے، حج فرض ہوگا حج کریں گے، جہاد فرض ہوگا جہاد کریں گے، یا اللہ! ہم داخل ہوتے ہیں سلسلۂ چشتیہ میں سلسلۂ قادریہ میں ، سلسلۂ نقشبندیہ میں سلسلۂ سہروردیہ میں، یا اللہ! ان چاروں سلسلوں کے بزرگانِ دین اور اولیائےکرام کی نسبت سے ہم کو ایمان، یقین، احسان اس مقام کا نصیب فرما کہ ہماری زندگی کی ہر سانس آپ پر فدا ہو اور ایک سانس بھی ہم آپ کو ناراض نہ کریں۔ یہ دعا