مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
بھی کھاتے ہیں لیکن نمک بننے کے لیے شرط یہ ہے کہ گدھا مرجائے، اپنے کو مٹادے، اگر نہ مرا تو گدھے کا گدھا ہی رہے گا۔ بس جو اﷲ والا بننا چاہے وہ اپنے نفس کو کسی صاحبِ نسبت کے سامنے مٹادے۔ اپنی رائے کو اس کی رائے میں فنا کردے، اس کی کامل اتباع کرے تو یہ بھی اﷲ والا ہوجائے گا۔ یہ طریقہ بزرگوں سے چلا آرہا ہے اور اسی طریقہ سے لوگ اﷲ والے بنے ہیں اور یہ سنت سے زیادہ قریب ہے لہٰذا زیادہ نفع بخش ہے جبکہ دوسرے طریقوں میں یہ خاص بات نہیں اگرچہ وہ بھی نافع ہیں کیوں کہ دین کا کوئی کام نفع سے خالی نہیں لیکن تزکیہ و اصلاحِ کامل کے لیے یہ طریقۂ بزرگاں خاص ہے جبکہ کسی دینی کام میں انتظاماً اگر کسی کو امیر بنادیا گیا تو دوسرے وقت وہ مامور بھی ہوسکتاہے لیکن شیخ مرید نہیں ہوسکتاجس طرح نبی اُمتی نہیںہوسکتا۔ اس لیے شیخ ہر دن شیخ رہتا ہے لہٰذا اس کی صحبت سے اصلاحِ کامل ہوتی ہے۔ اﷲ والا بننے کے لیے کسی صاحبِ نسبت سے جو بزرگوں کا اجازت یافتہ ہو تعلق ضروری ہے۔ اس کے بغیر عادتاً نسبت عطا ہونا محال ہے۔ دوسری ضروری چیز اﷲ والا بننے کے لیے گناہوں سے بچنا ہے، ولایت کا مدار تہجد، نوافل، کثرتِ ذکر، نفلی حج و عمرہ پر نہیں ہے، تقویٰ پر ہے اور تقویٰ کے معنیٰ ہیں اﷲکی ناراضگی والے اعمال سے بچنا یعنی اﷲ کو ناراض نہ کرنا اور اس زمانہ میں جو گناہ عام ہے اور جس کی وجہ سے ہزاروں سالکین خدا سے محروم ہوگئے ہیں وہ ہے بدنگاہی۔ حدیث پاک میں اس کو آنکھوں کا زِنا فرمایا گیا ہے زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ یہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔ نظر بچانے میں دل کو حلاوتِ ایمانی عطا ہوتی ہے، نظر بچاؤ اور دل میں ایمان کا حلوہ کھاؤ اور آج کل تو سڑکوں پر، ایئرپورٹوں پر، ریلوے اسٹیشنوں پر، اسکولوں کے پاس ایمان کے حلوے کی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں، نظر بچاتے رہو اور حلوۂ ایمانی کھاتے رہو، نظر کو تکلیف دو اور دل میں ایمان کے حلوے کی لذت اور مٹھاس لو، دنیا ہی میں جنت کا مزہ ملنے لگے گا۔ اہل اﷲ کو ایک جنت دنیا ہی میں عطا ہوجاتی ہے جَنَّۃٌ فِی الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی جس دل میں خالقِ جنت ہے، جنت سے زیادہ مزہ اس کو نہ ملے گا؟ جس نے اﷲ کو راضی کرلیا وہ خالقِ جنت کو ساتھ لیے پھرتا ہے ؎