مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ؎ فرمایا کہ خَطَّاءٌ کےمعنیٰ ہیں کثیر الخطاء۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ہر انسان کثیر الخطاء ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثیر التوبہ ہیں۔ کثیر الخطاء کو کثیر التوبہ بھی ہونا چاہیے، جیسا مرض ویسی دوا۔ اور توبہ بھی تینوں شرائط کے ساتھ ہو: ۱۔ اَ لرُّجُوْعُ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ اِلَی الطَّاعَۃِیعنی عوام کی توبہ یہ ہے کہ گناہ چھوڑ دیں اور اﷲ تعالیٰ کی فرماں برداری کرنے لگیں۔ نافرمانی سے فرماں برداری کی طرف رجوع،یہ عوام کی توبہ ہے اور خواص اولیاء کی توبہ ہے: ۲۔ اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَفْلَۃِ اِلَی الذِّکْرِیہ خواص کی توبہ ہے کہ دل اﷲ سے ذرا غافل ہوگیا، گناہ نہیں کیا، ذرا سی غفلت پیدا ہوگئی تھی تو دل کو پھر اﷲ کی یاد میں لگا دیا ؎ مدت کے بعد پھر تری یادوں کا سلسلہ اِک قلبِ ناتواں کو توانائی دے گیا ۳۔اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَیْبَۃِ اِلَی الْحُضُوْرِ؎ اور اَخص الخواص کی توبہ یہ ہے کہ دل کو ہر وقت اﷲ کے سامنے حاضر رکھے اور اگر کبھی غَیبت ہوجائے کہ دل ذرا سا ان کے محاذات سے ہٹ جائے، تو فوراً دل کو اﷲ کے سامنے کردے، یہ ہمہ وقت باخدا رہتے ہیں،یہ لوگ خیرالخطائین ہیں۔ اب ایک علمی اِشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توبہ سے جب بندہ خیر ہوگیا،اﷲکا پیارا ہوگیا تو خیرالخطائین کیوں فرمایا؟ صرف خیر فرما دیا ہوتا خطائین کی نسبت ہی باقی نہ ہوتی،تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر توبہ کی کرامت اور خاصیت ظاہر نہ ہوتی کہ توبہ ایسا کیمیکل ہے جو شر کو خیر بنا دیتا ہے اور خطائین کی نسبت باقی رہنے سے بندوں کی عزت میں کوئی فرق نہیں آیا کیوں کہ ترکیب اضافی میں مضاف ہی مقصود ہوتا ہے،جیسےجَاءَغُلَامُ زَیْدٍیہاں زید نہیں غلام مقصود ہے، بس خیرالخطائین میں خیر ہی مقصود ہے نہ کہ خطائین۔ ------------------------------