مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوجاتے لہٰذا جب سارے عالم کے قلم اور سات سمندروں کی روشنائی اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کے لکھنے کے لیے ناکافی ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک طبقہ شہدا کا پیدا فرمایا جس کے خونِ شہادت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمتوں کی اور اپنی محبت کی تاریخ لکھوادی اور ان کو اس کام کے لیے انتخاب فرمایالِیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَاءَ کافروں کی کیا مجال تھی کہ وہ کسی مومن کا خون بہاسکتے اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور عظمت کی شہادت کے لیے ان کو منتخب فرمایا تاکہ منعم علیہم نبیین ، صدیقین اور صالحین کے ساتھ شہدا کا ایک گروہ بھی روئے زمین پر موجود رہے ورنہ کفار قرآنِ پاک کی صداقت پر اعتراض کرتے کہ منعم علیہم میں شہدا کے مصادیق کہاں ہیں ۔ لہٰذا ایک طبقہ پیدا فرمایا کہ تم لوگ مجھ پر اپنی جانوں کو فدا کردو اور اپنے خون سے میری محبت کی تاریخ لکھ دو۔ اب اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر بندوں کی جان فدا کرنے کا حکم کیوں دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو خدا ہم کو زندگی عطا کرسکتا ہے وہی خدا شہادت کا حکم دے کر ہماری زندگی کو اپنے اوپر فدا کرنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ جو ہم کو عدم سے وجود میں لاتا ہے وہ اگر کہہ دے کہ اپنی زندگی کو مجھ پر فدا کردو تو اس میں تم کو کیا اشکال ہے۔ جب ہم تم کو زندگی دینے پر قادر ہیں اور ہم تم کو زندگی عطا کرتے ہیں تو ہمیں تمہاری زندگی لینے کا حق حاصل ہے ، جب ہم تم کو حیات دے سکتے ہیں تو تمہاری حیات اپنے اوپر فدا کرنے کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ ہماری عطائے حیات ہمارے ہی لیے فدائے حیات ہے۔ ہماری طرف سے عطائے حیات کے بعد فدائے حیات کا حکم ظلم نہیں ہے، ہمارا حق ہے کہ ہم تم کو زندگی دیں اور پھر حکم دے دیں کہ اپنی زندگی کو مجھ پر فدا کرو تا کہ منعم علیہم کا یہ طبقۂ شہدا قیامت تک زندہ رہے۔ اگر شہادت کا باب بند ہوتا تو قرآنِ پاک کی اس آیت مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ؎ میں شہداء کے مصادیق کہاں ملتے لہٰذا قیامت تک جہاد ہوتا رہے گا اور شہید ہوتے رہیں گے، جس نے زندگی دی ہے شہدا اسی پر اپنی زندگی فدا کرتے رہیں گے۔ ------------------------------