مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
استغراق کا ہے۔ ابتدائے عالم سے قیامت تک گناہ کے جو اقسام وانواع ایجاد ہوں گے سب اس لام میں شامل ہیں۔ پس اس کے گناہوں کی تاریخ ایسی بھیانک ہوجائے گی جس کا وہ خود تصور نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا اے اللہ!آپ کے جس کرم نے ہمیں ہدایت بخشی ہے اپنے کرم سے اس ہدایت کو باقی بھی رکھیے اور اس میں ترقی بھی عطا فرمائیے۔ عطائے کرم بھی فرمائیے، بقائے کرم بھی فرمائیے اور ارتقائے کرم بھی فرمائیے۔ وَھَبْ لَنَا اور ہمیں ہبہ کردیجیے ۔ کون سا ہبہ ؟ جس میں ہمارا نفع ہو ۔ لَنَا میں لام نفع کا ہے مِنْ لَّدُنْکَ اپنے پاس والی رحمت ، اپنی خاص رحمت ہم کو ہبہ کردیجیے، یہاں عام رحمت کا سوال نہیں کیا جارہا ہے کیوں کہ شروع میں عدمِ از اغت کا سوال کیا گیا اس لیے یہاں وہ خاص رحمت مانگی جارہی ہےجو از اغت اور کجی سے قلب کو محفوظ فرمادے۔علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںاَلْمُرَادُ بِھٰذِہِ الرَّحْمَۃِ الْاِسْتِقَامَۃُ عَلَی الدِّیْنِ وَحُسْنُ الْخَاتِمَۃِاور لفظ ہبہ سے کیوں مانگنا سکھایا گیا ؟ کیوں کہ استقامت علی الدین اورحسنِ خاتمہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جس کی برکت سے جہنم سے نجات اور دائمی جنّت نصیب ہوگی ۔ یہ ہماری محدود زندگی کے محدود اور ناقص مجاہدات وریاضات کا صلہ ہر گز نہیں ہوسکتی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو متنبہ فرمادیا کہ خبردار ! میری اس رحمتِ خاصہ کو اپنے کسی عمل اور کسی مجاہدے اور کسی ریاضت کا بدلہ نہ سمجھنا کیوں کہ حسنِ خاتمہ میرا وہ عظیم الشان انعام اور وہ غیر محدود رحمت ہے جو دائماً دخولِ جنّت کا سبب ہے جس کا تم کوئی معاوضہ ادا نہیں کرسکتے کیوں کہ مثلاً اگر تم نے سو سال عبادت کی تو قانون اور ضابطےسے سو سال تک تمہیں جنّت میں رہنے کا جواز ہوسکتا تھا لیکن محدود عمل پر یہ غیر محدود انعام اور غیر فانی حیات کے ساتھ غیر فانی جنّت عطا ہونا یہ صرف میری عطا اور میرا کرم ہے اور اس کرم کا سبب محض کرم ہے لہٰذا میری یہ رحمتِ خاصہ اور انعامِ عظیم لینے کے لیے لفظ ہبہ سے درخواست کرو کیوں کہ ہبہ بدون معاوضہ ہوتا ہے اور ہبہ میں واہب اپنے غیر متناہی کرم سے جو چاہے عطا فرمادے ۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںوَفِی اخْتِیَارِ صِیْغَۃِ الْھِبَۃِ اِیْمَاءٌ اَنَّ ھٰذِہِ الرَّحْمَۃَ اَیْ ذٰلِکَ التَّوْفِیْقَ لِلْاِسْتِقَامَۃِ عَلَی الْحَقِّ تَفَضُّلٌ مَّحْضٌ بِدُوْنِ