مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اَبَدًا فَفِیْہِ اِشَارَۃٌ اِلٰی بَشَارَۃِ حُسْنِ الْخَاتِمَۃِ؎حلاوتِ ایمان جس قلب کو عطا ہوتی ہے پھر کبھی نہیں نکلتی اور اس میں حسنِ خاتمہ کی بشارت ہے۔ اور بخاری شریف کی ایک اور حدیث حضرت حکیم الامت کے اس قول کی دلیل ہےھُمُ الْجُلَسَاءُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ؎یہ اللہ والے ایسے جلیس ہیں کہ ان کا ہم نشین شقی نہیں رہ سکتا۔پس اہلِ اللہ کی صحبت بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر ایمان کی سلامتی چاہتے ہو تو اللہ والوں سے دور مت رہو۔ حکیم الاُمت نے فرمایا کہ شیخ کی صحبت میں بیٹھنے کو اپنی تمام نفلی عبادات سے بہتر سمجھو کیوں کہ اس کی صحبت میں نفس کی اصلاح ہوتی ہے اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے جس پر ولایتِ خاصہ موقوف ہے، اور اللہ والوں کو تو دیکھنے ہی سے اللہ یاد آجاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اِذَا رُأُوْا ذُکِرَ اللہُ؎ اللہ والا وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آجائے ، مولانا رومی کی قبر کو اللہ نور سے بھردے کیا عمدہ بات فرمائی اور میں بچپن سے اسی لیے ان پر عاشق ہوں۔ فرماتے ہیں ؎ دیدنِ او دیدنِ خالق شد است اللہ والوں کو دیکھنا اللہ کو دیکھنا ہے۔ جس شیشی میں دس ہزار روپے تولے کا عطر ہے اس عطر کی شیشی کو دیکھنا کیا عطر کو دیکھنا نہیں ہے ؟ پس جن کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات ہیں ان کو دیکھنا گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ہے، ان کے پاس بیٹھنا گویا اللہ تعالیٰ کے پاس بیٹھنا ہے۔ حدیثِ قدسی میں ارشاد ہےمَا وَسِعَنِیْ اَرْضِیْ وَلَاسَمَائِی وَوَسِعَنِیْ قَلْبُ عَبْدِیْ؎ میں زمین وآسمان میں نہیں سمایا لیکن اپنے بندۂ خاص کے دل میں سما جاتا ہوں۔ اسی کو مولانا رومی حکایتاً عن الحق فرماتے ہیں ؎ در دِل مؤمن بگنجیدم چو ضیف میں مؤمن کے دل میں مثل مہمان کے آجاتا ہوں ( باعتبارِ تجلیاتِ خاصہ ) لہٰذا اہل اللہ سے ------------------------------