مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
طرف چل اس طرح کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش۔ بندے کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں مُقدّم فرمایا اور اپنی خوشی کو مؤخر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا میں وہی ترتیب رکھی جو قرآنِ پاک میں نازل ہے لہٰذا یہ حدیث قرآنِ پاک کی اس آیت سے مقتبس ہے۔ علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں ایک سوال قائم کیا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشی تو اعلیٰ چیز ہے اور بندوں کی خوشی اس کے مقابلے میں ادنیٰ چیز ہے تو پھر بندوں کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے کیوں مُقدّم کیا ؟اس کا جواب خود علامہ آلوسی نے دیا کہ اس کا نام ہےاَلتَّرَقِّیْ مِنَ الْاَدْنٰی اِلَی الْاَعْلٰی کہ ترقی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف دی جاتی ہے جیسے انٹر کے طالب علم کو بی اے میں داخلہ دیا جاتا ہے۔لیکن اس کی ایک مثال اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمائی کہ کبھی ابّا اپنے چھوٹے بچے کو لڈو دیتا ہے اور کہتا ہے کہ خوش ہوجا اور میں بھی تجھ سے خوش ہوں جب ہی تو یہ لڈو دیا ہے، اگر ناراض ہوتا تو کیوں دیتا ، تو جس طرح ابّا اپنی خوشی کو مؤخر کرتا ہے اور بچے کی رعایت سے اس کی خوشی کو مُقدّم کرتا ہے تو جب ابّا کی شفقت کا یہ تقاضا ہے تو ہمارے ربّا نے بھی ہمارا دل خوش کرنے کے لیے ہماری خوشی کو پہلے بیان کردیا۔ وہاں شفقتِ پدری ہے اور یہ شفقتِ ربوبیت ہے اور ماں باپ کہاں سے شفقت لائیں گے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شفقت کا ظہور ہے۔ مولانا رومی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں کہ ؎ مادراں را مہر من آموختم اے ماؤں کی محبت پر ناز کرنے والو! ماؤں کو محبت کرنا تو میں نے ہی سکھا یا ہے میں اگر ان کے جگر میں محبت نہ ڈالتا تو یہ کہاں سے محبت لاتیں ،تو سوچو کہ پھر میری رحمت کا کیا عالم ہوگا! یہ تو ایک حصۂرحمت کا ظہور ہے جس سے سارے عالم میں مخلوق ایک دوسرے سے محبت کررہی ہے، ننانوے حصۂ رحمت تو میرے پاس ہے جس کا ظہورقیامت کے دن ہوگا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مزاج شناسِ الوہیت کون ہوسکتا ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے کلام کی اتباع میں اسی ترتیب سے دعا مانگی کہ اے اللہ! آپ ہمیں خوش کردیجیے اور ہم سے خوش ہوجائیے۔ آہ ! بچہ