مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
بدسلوکی کی تو وہ یا تو ندامت سے محجوب ہو کر بھاگ جائے گا یا غصہ اور تکبر سے اور اکڑ جائے گا کہ ذرا احسان کیا کردیا کہ میرے اوپر رعب جمارہے ہیں لہٰذا یا ندامت سے بھاگے گا، یا غصہ سے بھاگے گا یا تکبر سے بھاگے گا اور تینوں صورتوں میں قطع رحمی ہوجائے گی اور ہمیں حکم ہے کہ صِلْ مَنْ قَطَعَکَ؎ جو رشتہ دار تم سے توڑے تو اس سے جوڑے رہو۔ لہٰذا مریدین کی اصلاح کا طریقہ اور ہے، رشتہ داروں کا اور ہے ۔ مرید کو ڈانٹ ڈپٹ کرو تو بے چارہ روتے روتے بے حال ہوجائے گا لیکن رشتہ دار کہاں معافی مانگتے ہیں۔ ان کو مرید کی طرح محبت تھوڑی ہوتی ہے لہٰذا ان کا سبق حضرت یوسف علیہ السلام سے حاصل کرو کہ جب ان کو بادشاہت مل گئی اور ان کے بھائی قحط کی وجہ سے ان سے غلّہ مانگنے آئے اور ان بھائیوں کو خبر نہیں تھی کہ یہی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں۔ پورا قصہ سورۂیوسف میں ہے۔ بہرحال جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ یہی یوسف علیہ السلام ہیں جن کو ہم نے کنویں میں ڈال دیا تھا تو ان کو سخت شرمندگی ہوئی لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا فرمایا لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ؎ آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں اور جو تم نے کنویں میں ڈالا وہ تمہاری غلطی نہیں تھی، شیطان نے ہمارے تمہارے درمیان گڑ بڑ کردی تھی۔ لہٰذا بھائیوں کو ان کی بدسلوکی یاد دلا کر محجوب بھی نہیں کیا اور ان کی خطا کو شیطان پر ڈال دیا تاکہ میرے بھائیوں کی آنکھیں مجھ سے مل سکیں اور وہ شرمندہ نہ ہوجائیں۔ اس سے یہ سبق ملا کہ رشتہ دار اگر ستا ئیں تو ان کی معافی مانگنے کا انتظار نہ کرو، بغیر معافی مانگے ان کو معاف کردو اور ان کو محجوب وشرمندہ بھی نہ کرو ورنہ قطع رحمی کا خطرہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ جنّت میں اس کے لیے اونچے اونچے محل بنائے جائیں اور اس کے درجات بلند کردیے جائیں فَلْیَعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَہٗ اس کو چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے اس کو معاف کردے وَیُعْطِ مَنْ حَرَمَہٗ اور جو ------------------------------