مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
سے دل میں گناہ کا وسوسہ ڈال کر چلا جاتا ہے پھر داخلی دشمن بار بار گناہ کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے شیطانی وسوسہ اور نفسانی وسوسہ میں یہی فرق بتایا ہے کہ اگر ایک بار گناہ کا وسوسہ آئے تو یہ شیطان کی طرف سے ہے اور اگر بار بار گناہ کا تقاضا ہو تو سمجھ لو کہ یہ نفس ہے، اور دوسرا فرق یہ ہے کہ چوں کہ شیطان مردود ازلی ہے اس کی دشمنی بھی دائمی ہے اور نفس کی دشمنی عارضی ہے اگر اس کی تہذیب وتزکیہ واصلاح کرلی جائے تو یہ ولی بھی ہوجاتا ہے ، پھر یہ امّارہ سے لوّامہ اور لوّامہ سے مطمئنہ اور پھر راضیہ اور مرضیہ ہوجاتا ہے۔ کَمَا قَالَ اللہُ تَعَالٰی:اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ ؎وَقَالَ تَعَالٰی :وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ؎وَقَالَ تَعَالٰی : یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ؎ نفس میں حصولِ ولایت کی صلاحیت ہے اور شیطان اس صلاحیت سے محروم ہے، یہ کبھی ولی نہیں ہوسکتا۔یہ فرق زندگی میں پہلی بار بیان کیا اس سے پہلے کبھی دل میں یہ بات نہیں آئی۔ یہ میرے بزرگوں کی کرامت ہے جن کی اختر نے غلامی کی ہے کہ ہر وقت نئے نئے علوم عطا ہورہے ہیں۔حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ جو آسکتا نہیں وہم و گماں میں اسے کیا پاسکیں لفظ و معانی کسی نے اپنے بے پایاں کرم سے مجھے خود کر دیا روح المعانی یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مجھے مفسر نہیں بلکہ سراپا تفسیر بنادیا۔ اس شعر کی یہ تشریح بھی عجیب ہے جو اگر اللہ کا کرم نہ ہو تو ذہن میں نہیں آسکتی۔ ------------------------------