مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔جنّت میں اللہ تعالیٰ یہ پٹی ہٹا دیں گے۔ وہاں کاف کی پٹی ہٹادی جائے گی پھراَنَّکَ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔یہ تقریر میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جو ایک واسطے سے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح بخاری میں اس احسانی کیفیت کو بیان فرمایا کہ احسان کیا ہے ؟ فرماتے ہیںاَنْ یَّغْلِبَ عَلَیْہِ مُشَاھَدَۃُ الْحَقِّ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَنَّہٗ یَرَی اللہَ تَعَالٰی شَاْنُہٗ؎یعنی مشاہدہ ٔ حق ایسا غالب ہوجائے کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کیفیت کو مدارس سے ، کتابوں سے ، تبلیغ سے ، تدریس سے کوئی نہیں پاسکتا۔ یہ کیفیت صرف اور صرف اہل اللہ کے سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی ہے۔ کیفیات کے حامل قلوب ہوتے ہیں، قوالب اور اوراقِ کتب نہیں ہوتے۔ کتابوں سے یہ چیز نہیں مل سکتی ، کمیاتِ شرعیہ کتابوں سے ملتی ہیں لیکن کیفیاتِ احسانیہ کے حامل اوراقِ کتب نہیں ہوسکتے ، یہ کیفیاتِ احسانیہ سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں لہٰذا جب شیخ کے پاس جاؤ تو اضافۂ علم کی نیت نہ کرو کیفیتِ احسانیہ کی ترقی کی نیت کرنا چاہیے۔ اعمال کی ترقی اور قبولیت احسان پر موقوف ہے کمیت پر موقوف نہیں جیسے جہاز میں لوہا کم ہوتا ہے اس کا حجم بھی کم ہوتا ہے اور ریل کا لوہا اور حجم زیادہ ہوتا ہے لیکن جہاز چھوٹا ہو چاہے ڈکوٹہ ہی ہو لیکن اپنی اسٹیم کی کیفیت کی وجہ سے یہاں سے چند گھنٹوں میں جدہ پہنچ جائے گا جب کہ ریل کو پہنچنے میں کئی دن لگ جائیں گے۔ لہٰذا اپنے بزرگوں کی خدمت میں ہم جائیں تو یہ نیت کریں کہ کیفیت کی اسٹیم لینے جارہے ہیں کیوں کہ اگر علم کی نیت کی تو ممکن ہے وہاں ایک علم کی بار بار تکرار ہو۔ اس تکرار سے بعضے نادان گھبراتے ہیں کہ میاں! وہاں تو ایک ہی بات کو بار بار بیان کرتے ہیں ایسا سمجھنا سخت نادانی ہے۔ تکرارِ علم قرآنِ پاک سے بھی ثابت ہے، ایک ہی آیت کتنی جگہ نازل ہوئی ہے۔ تکرارِ علم دلیلِ شفقت ہے۔ باپ اپنے بیٹوں سے بار بار کہتا ہے کہ بیٹا! اس گلی سے نہ جانا وہاں غلط ------------------------------