مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی اس اُمت کی بہت بڑی بہت اہم اور بہت معزز شخصیت تھے جن کی ولایت کے تمام بزرگانِ دین قائل ہیں۔اللہ کی شان کہ میں بچپن ہی سے ان پر عاشق ہوں، اسی وقت سے مجھے ان سے بے پناہ محبت تھی۔ میں بالغ بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے شعر پڑھ کر رویا کرتا تھا، خصوصا ً یہ اشعار ؎ سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق تابگویم شرح از درد اشتیاق اے خدا !آپ کی جدائی کے غم سے میرا سینہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے تاکہ جب میں آپ کی محبت کی بات بیان کروں تو اس میں دردِ دل بھی شامل ہو۔ اور اللہ اللہ ایں چہ شیریں است نام شیر و شکر می شود جانم تمام اے اللہ!آپ کا نام کتنا میٹھا ہے کہ جب میں اللہ کہتا ہوں تو میری روح میں جیسے کوئی دودھ میں چینی ملادیتا ہے ؎ نامِ او چو بر ز بانم می رود ہر بُن مو از عسل جوئے شود اے اللہ! جب میں آپ کا نام لیتا ہوں تو میرے بال بال شہد کے دریا ہوجاتے ہیں۔ اور ؎ خوشتر از ہر دو جہاں آنجا بود کہ مرا با تو سر و سودا بود اے خدا! دونوں جہاں میں وہ زمین مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے جس پر بیٹھ کر جلال الدین رومی آپ کی محبت میں اپنے سر کا سودا کرلے۔ اللہ کی محبت سے جس سر کا سودا ہوجائے وہ سر بھی قیمتی ہوجاتاہے۔ آج اس شہر کی زیارت کے لیے ہم لوگ جارہے ہیں جہاں مثنوی کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہوئے جن میں اللہ کے عشق ومحبت کی آگ بھری ہوئی ہے۔ سارے عالم میں جس کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ لہٰذا میں اس زمین پر اس نیت سے آیا