احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
اس کے پیروئوں کی تعداد پر نظر ڈالنے کی سب سے پہلے ضرورت ہے۔ گزشہ مردم شماری کی رو سے گیارہ سو جوان مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو ہیں۔ گویا دس ہزار کے قریب اس فرقہ کی مجموعی تعداد ہے تو آہستہ آہستہ یہ لوگ ترقی کررہے ہیں۔ اس کا آرگن تو یہ کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ پچاس ہزار بلکہ ستر ہزار آدمی کا گروہ ہے۔ (نہیں جناب تقریباً دولاکھ) حال میں ۲۶؍صفحہ کا ایک پمفلٹ شائع ہوا ہے جس کا نام ’’مرزا غلام احمد مہدی مسیح قادیانی‘‘ہے اس کے مصنف لاہور کے پادری۔ ایچ۔ ڈی گریسوولڈ صاحب فلسفہ کے ڈاکٹر ہیں۔ اس رسالہ میں معمول سے زیادہ سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے مگر جو کچھ لکھا ہے وہ بادی النظر میں صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے۔ قادیان ضلع گورداسپور میں واقع ہے وہاں ایک پینسٹھ سالہ آدمی رہتا ہے جس کی صورت بزرگوں کی سی ہے۔ چہرہ مسخر القلوب اور عقل تیز ہے۔ یہ مرزا غلام احمد رئیس قادیان ہیں۔ اسی وجہ سے قادیانی کہلاتے ہیں۔ فرقہ احمدیہ کے بانی اور سردار ہیں۔ ذات سے مغل ہیں۔ چار صدی گزریں بابر کے عہد سلطنت میں ان کے بزرگ سمرقند سے آئے تھے۔ موروثی پیشہ دوا فروشی ہے۔ غلام احمد نے اپنے مختصر رسالوں میں یہ لاف زنی اور چٹی پٹی ادویات کے ذرائع سے وباء کے زمانہ میں بہت کچھ کرڈالا۔ آخر کار گورنمنٹ نے دست اندازی کرکے اس کی کارروائی کو بند کیا۔ اس کا خاندان غدر میں خیرخواہ تھا۔ چنانچہ سر لییل گریفن نے اپنی کتاب رؤسائے پنجاب میں بھی ذکر کیا ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں گورنمنٹ انگلشیہ کا بڑا خیر خواہ ہوں۔ مگر یہ دعویٰ بالکل تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ کہتا ہے کہ میرا فتویٰ جہاد کے خلاف ہے۔ پانچ سال ہوئے سرسیکورتھ ینگ کو ایک میموریل میں اس نے لکھاتھا کہ جہاد کے مسلمہ مسئلہ سے انکار کرنا ہی مجھ کو مسیح موعود اور مہدی مان لینا ہے۔ پادری صاحب کہتے ہیں کہ اہل اسلام میں تعصب اور مذہبی جوش کا میلان نہ ہوتا تو یہ مذہب بہت ہی اچھے عقیدہ کا ہوتا جیسا کہ مجھ کو بہت سے معزز ومحترم اصحاب کی ملاقات سے معلوم ہوا۔ سبحان اﷲ اس مقدس مذہب کی عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ پادری صاحب کے قلم سے بے ساختہ اس کی تعریف نکل رہی ہے۔ بدنام کنندہ نیکو نامے چند، ان کو دیکھ کر مذہب اسلام کے متعلق رائے قائم کرلینا سخت