احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
پیش مرزائیاں بیاید۔ تحریر مذکورہ بعد کارروائی حسب ضابطہ کے واپس فرمائیے۔ راقم: ایس۔ایم! ’’میری نسبت جو لوگوں کو گمان ہوا ہے کہ یہ مرزائی ہوگیا ہے۔ یہ خبر بالکل غلط ہے۔ کیونکہ بندہ تو مرزاقادیانی کو جیسا کہ مولانا مولوی صاحب سید نذیر حسین صاحب دہلوی، مولانا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی مرتد اور کافر اور ملعون سمجھتے ہیں۔ ویسا ہی بندہ بموجب شرع جناب رسول اکرم محمدa اس کو کافر اور مرتد سمجھتا ہے اور بندہ ہرگز اس کے مریدوں میں داخل نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی بہت مکار اور جھوٹا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی کے مرید بہت کم ہیں۔ لیکن جعلی مرید اس نے بہت بنارکھے ہیں اور تمام مسلمانوں کو واضح ہو کہ اس کا کچھ اعتبار نہ کریں۔ جب تک اپنی آنکھ سے دیکھ نہ لیں کہ کون کون اس کا مرید ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اس نے دنیا کے بدلے ایمان برباد کر دیا ہے۔ الراقم: شاہ محمد برادرزادہ حقیقی مولانا مولوی غلام رسول صاحب مرحوم ساکن قلعہ میہان سنگھ ضلع گوجرانوالہ! جس کا نام ایڈیٹر الحکم نے عبدالرحمن مشہورکیا ہے۔ حالانکہ ہماری برادری میں کوئی اس نام کا نہیں اور نہ کوئی ہمارے خاندان سے ایسا ہے جو مرزاقادیانی کو کافراور مرتد نہ سمجھتا ہو۔ فقط بقلم خود شاہ محمد!‘‘ ۲… قادیان میں طاعون مسیحی ہم عصر سدائے بشیر گجرات بعنوان (آخر راستی کی فتح) حسب ذیل لکھتا ہے۔ ’’خداوند فرماتا ہے کہ میں اپنی عزت دوسرے کو نہ لینے دوں گا۔ کچھ عرصہ تک تو قادیانی احمد نے مثیل مسیح اور الہام ہی پر اکتفا کیا۔ مگر اب کمبختی جو آئی تو لشکروں کے خدا کے مقابل کھڑا ہوگیا۔ خدا بننے کی ٹھہرا لی۔ چنانچہ ان کے حال کے طاعونی اشتہار میں ایک یہ فقرہ بھی مرقوم تھا کہ خداقادیانی سے کہتا ہے کہ: ’’تو مجھ سے اور میں تجھ سے۔‘‘ لا حول ولا! اس کفر کی بھی کچھ حد ہے۔ ابن مریم کے مقابلہ پر کھڑا ہونا ایک خاکی ناپاک انسان کا کیا بوتا ہے۔ اسی شیخی پر کہہ اٹھے کہ خدا کو میری رعایت منظور ہے اور قادیان دارالامان مقرر ہوا ہے۔ طاعون سے محفوظ رہے گا۔ دنیا کو للکار بتائی تھی کہ آؤ مقابلہ پر۔ یہ ایک طرح تقدیر الٰہی کا مقابلہ تھا۔ مگر وہ غیور خدا اگرچہ رحمان اور رحیم ہے۔ مگر ہر حال میں معاف نہیں کرتا۔ اتنا بڑا شہر بٹالہ جس کی آبادی ۳۰ہزار سے زیادہ ہے۔ ہنوز وبائے طاعون سے محفوظ ہے۔ مگر قادیان محفوظ نہ رہ سکا۔ بہت موتیں ہوچکی ہیں۔ خود قادیان کے جبرائیل بھیروی کی کوئی عزیزہ بھی جانبر نہ ہوسکی۔ اب وہ مرزا کی لن ترانیاں کہاں ہیں۔ مرزایاد رکھے کہ المسیح ایک چٹان ہے جس پر یہ چٹان گرتی ہے اس کو پیس ڈالتی ہے۔ جو اس چٹان پر گرتا