احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
فرمایا (مرزا نے) ’’اصل میں جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں۔ ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے واسطے جانا بھی اک طرح کا حج ہے۔ حج بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم کی پابندی ہے اور ہم بھی تو اس کے دین اور اس کے گھر یعنی خانہ کعبہ (قادیان) کی حفاظت کے واسطے آئے ہیں۔‘‘(ملفوظات ج۵ ص۱۵۵) ناظرین! اب تو مرزا اور مرزائی قادیان جانے کو حج کہنے لگے۔ یعنی قادیان جانے کو فرض کہتے ہیں۔ چنانچہ اس اخبار میں لکھا ہے۔ ’’پس جس جس نے اس (مرزا) کے ہاتھ پر بیعت کی وہ یہ اپنے اوپر لازم (فرض) سمجھے کہ کچھ عرصہ تک اس کی صحبت میں رہے۔‘‘ (ایضاً) اور جو قادیان جانا فرض نہ سمجھے اس پر افسوس کیا ہے چنانچہ اسی الحکم میں لکھا ہے۔ ’’بڑا افسوس ہے کہ اکثر لوگ بیعت کرتے جاتے ہیں اور پھر اس کی ضرورت (فرضیت) نہیں سمجھتے کہ پاس جا کر رہیں۔‘‘ (ایضاً) خانہ کعبہ سے یہ رقابت کہ اس سے ہٹا کر قادیان کا حج فرض کردیا مگر یہ بے وجہ نہیں۔ اس میں اپنی گرم بازاری اور آمدنی کی صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خانہ کعبہ کا حج کرنے سے جان نکلتی ہے۔ جان کا خوف کھائے لیتا ہے۔ بے امنی کا عذر ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ‘‘ ہر وقت زبان پر جاری ہے مگر قادیان کا حج فرض ہے۔ اب اس فرقہ کے کفر میں جس مسلمان کو شک ہے تو اس کو قرآن اور اسلام پر بھی شک ہے۔ وما علینا الا البلاغ! ج۔ن! ۴ … وہی مرزا قادیانی کا جہاد مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرز اقادیانی۱۰؍مارچ کے الحکم میں جہاد کے قطعی استحصال کی یہ تجویز بتاتے ہیں کہ ’’ایک مبسوط کتاب تیار کی جائے جس میں عقلی اور نقلی دلائل سے جہاد کی ممانعت ثابت کی جائے اور پشتو اور فارسی اور عربی میں اس کا ترجمہ ہوکر ۴۰؍ہزار جلد چھاپی اور مشتہر کی جائے اور میں دس ہزار روپیہ تک اس کے اخراجات میں دے دوں گا وغیرہ۔‘‘(۱۰؍لاکھ لکھتے تو کون ہاتھ پکڑتا تھا) معلوم نہیں یہ ’’سرودبمستان یا ددہانیدن‘‘ کیوں ہے اور ہندوستان کے کونسے مسلمان جہاد پر آمادہ ہیں۔ علماء ہند تو متواتر فتوے دے چکے ہیں اور مبسوط کتابیں مشتہر کرچکے ہیں کہ اصول اسلام کے موافق مسلمان جس گورنمنٹ کے امن میں ہوں اور آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی اور تمدنی فرائض ادا کرتے ہوں۔ایسی محسن گورنمنٹ کی مخالفت بغاوت اور فساد ہے نہ کہ جہاد۔ بلکہ یہ تو سراسر کفران نعمت ہے مگر مرزا قادیانی کا باربار جہاد جہاد بنکارنا یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلمانان ہند کے دلوں میں وحشیانہ بغاوت کی ہوا اب تک موجود ہے اور وہ انگلش گورنمنٹ کی دوسو برس کی پر امن حکومت میں رہ کر بھی اس کے حقوق کے قدر شناس اور اس کے احسانات کے ممنون نہیں۔