احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہم نے بارہا سمجھایا اور پیشینگوئی کی کہ ان جھگڑوں سے باز آئو اور خیر اسی میں ہے کہ مقدمات کی استروں کی مالا گلے سے نکال ڈالو یعنی راضی نامہ دے دو اور مقدمات سے فی الفور دست بردار ہو اور آئندہ نام بھی نہ لو ورنہ خدا جانے ہندوستان میں کہاں کہاں کا چکر نصیب ہوگا۔ صرف گورداسپور اور جہلم کے چکر پر سنیچر اکتفا نہ کرے گا مگر افسوس ہے کہ مجدد السنہ مشرقیہ کی پیشینگوئی پیٹھ پیچھے کی بات سمجھی گئی۔ اور اس کو دشمن قرار دیا گیا۔ حاشا کہ مجدد لے پالک کا دشمن ہو وہ تو آسمانی باپ سے بھی کہیں زیادہ لے پالک کا شفیق اور ہمدرد ہے۔ آسمانی باپ تو کبھی کبھی لے پالک کے بارے میں غپا بھی کھا جاتا ہے مگر مجدد کی نگاہ مہر زیر سپہر کبھی قہر سے نہیں بدلی نہ اس میں کبھی زہر ملا۔ راضی نامہ دینے اور مقدمات سے دست بردار ہونے میں یہ کبھی نہ سمجھنا چاہئے کہ لے پالک کی ہیٹی ہوگی اور مونچھیں نیچی ہوجائیں گی بلکہ آسمانی باپ کی بارگاہ میں تو جو اپنے کو نیچا کرے وہی اونچا ہے۔ ۴… معجزہ کسے کہتے ہیں؟ مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! (۲۴؍اپریل۱۹۰۳ء، الحکم ج۷ نمبر۱۵ ص۴) میں مرزا قادیانی نے معجزے کی چند شرائط بیان کی ہیں جو بالکل مہمل اور خرافات اور سراسر الحاد ہیں اور ان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آسمانی باپ نے لے پالک کو ابھی تک علم کلام والٰہیات کے پرائمری سکول میں بھی نہیں بٹھایا اوراس میں کلام الٰہی کے سمجھنے کا مادہ نہیں پیدا کیا۔ منجملہ شرائط کے ایک شرط یہ ہے کہ ’’معجزہ خارق العادۃ ہو کیونکہ طلوع شمس اور شگوفہ ربیع کو معجزہ نہیں کہہ سکتے۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کو خرق عادۃ کے معنے بھی معلوم نہیں۔ گویا عادت اﷲ معجز نہیں اور اس کے مقابلے میں انسانی افعال معجز ہیں۔ نمرود سے جو حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جناب باری کی روحانیت کے ثبوت میں معارضہ کیا تو یہ فرمایا: ’’ان اﷲ یاتی بالشمس من المشرق فات بہا من المغرب‘‘ یعنی میرا خدا وہ ہے کہ آفتاب کو مشرق سے طلوع کرتا ہے بھلا تو آفتاب کو مغرب سے طلوع کرے۔ ’’فبہت الذی کفر‘‘ یعنی کافر مردود نمرود اس دلیل پر مبہوت (دم بخود) ہوگیا۔ اب مرزا قادیانی فرمائیں کیا طلوع شمس اور فصل بہار وخزاں کا تغیر وتبدل انسانی افعال ہیں۔ ایک گھاس کی پتی کو دیکھو پتھروں اور پہاڑوں سے پھوٹ کر نکلتی ہے کیا انسان اپنی طاقت سے ایسا نمونہ دکھا سکتا ہے؟