احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
گر نہی بارش بگوید طائرم در بپر گوئش گوید اشترم یعنی اگر تو شتر مرغ سے کہے گا کہ بوجھ اٹھا تو وہ جواب دے گا کہ میں تو پرندہ ہوں اور پرندوں پر کوئی بوجھ نہیں لادتا اور اگر تو کہے گا کہ اُڑ تو جواب دے گا کہ میں اونٹ ہوں اور اونٹ اڑ نہیں سکتا۔ ۳ … وہی بے معنے الہام مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی کے الہامات کا بدون اصلاح مجدد السنہ مشرقیہ شائع ہونا خود آسمانی باپ کی ناراضی کا باعث ہے کیونکہ اس نے بھی شوکت اﷲ کو مجدد مان لیا ہے۔ باپ کا خلاف کرنا خلف کا تو کام ہے نہیں۔ مرزا قادیانی ہی بتائیں کہ کس کا کام ہے۔ نئے بھیکے کے کھچے ہوئے تازہ الہامات تو اب شاذونادر ہی شائع ہوتے ہیں۔ ہاں پرانے دھرانے باسی تباہی پھپھوندے ہوئے گلے سڑے الہامات کسی مٹکے سے جس میں طاعونی چوہے رہتے ہوں نکل آتے ہیں۔ ۹؍جنوری ۱۹۰۲ء کی شب کو آسمانی باپ نے مندرجہ ذیل الہام وارد کیا تھا۔ ’’قد جرت عادۃ اﷲ انہ لا ینفع الاموات الاالدعاء‘‘ (تذکرہ ص۴۱۵، طبع سوم) یعنی خدا کی عادت اس امر پر جاری ہے کہ اموات کو بجز دعا کے کوئی شے نفع نہیں دیتی۔ موتوں کو یعنی مردوں کو نفع دینا آج ہی سنا۔ موت کا نفع تو اس میں ہے کہ موتیں زیادہ ہوں۔ دنیا میں تو موت کے لئے کوئی نفع ہے نہیں۔ البتہ اگر اموات کے اعمال اچھے ہوں تو عاقبت میں نفع مل سکتا ہے۔ مگر اس الہام سے مرزا قادیانی کا یہ مطلب نہیں ان کا مطلب تو طاعونی اموات ہیں کہ ان کو نفع صرف لے پالک کی دعا سے ہوگا۔ یعنی دعا سے موتیں زیادہ ہوں گی اور طاعون زیادہ پھیلے گا۔ کیونکہ وہ لے پالک کی لینڈوری بلکہ باڈی گارڈ ہے۔ افسوس ہے یہ بھی لیاقت نہیں کہ نفع الاموات کی ترکیب جائز ہے یا ناجائز۔ اب مجدد کی اصلاح غور سے ملاحظہ فرمائیے: ’’قد جرت عادۃ اﷲ انہ لا ینفع الناس فی الامراض الساریۃ الاالدعاء‘‘ یعنی خدائے تعالیٰ کی عادت اس پر جاری ہے کہ انسانوں کو امراض وبائیہ میں صالحوں اور مومنوں کی دعا کے سوا کوئی شے نفع نہیں دیتی۔ اب آپ جیسے کچھ صالح اور مومن یعنی تو حید رسالت پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ عیاں راچہ بیان۔ خدائے تعالیٰ کی عادت بے شک اس امر پر جاری ہے کہ جب دنیا میں جھوٹ۔ فریب، مکاری، عیاری، جعل وغیرہ بداعمالیاں پھیلتی ہیں اور خدائے تعالیٰ کے احکام کی مخالفت اور اس کے برگزیدہ رسولوں کا انکار کیا جاتا