احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
سفلۂ خوش پوش را برصدر عزت جامدہ کفش اگر زریں بود بالا سے سرنتوان نہاد کشمیری صاحب نے تو اپنے نبی کی تعریف میں کچھ بھی مبالغہ نہیں کیا۔ عرفی شیرازی خود اپنی تعریف میں لکھتا ہے ؎ مریم من فیض جبریل از مزاج خود گرفت مریمی رابرو بالا ذہن عیسیٰ زائے من لیجئے آپ اگر شبیہ مسیح ہیں تو عرفی کا ذہن عیسیٰ زا ہے یعنی عیسائوں کے جننے کی کل ہے۔ اس لئے عرفی لکھتا ہے کہ میرے ذہن عیسیٰ آفرین نے مریم ہونے کے مرتبہ کو بڑھا دیا ہے پس ہم ایسی ہی مجذوب کی بڑ کشمیری صاحب کے کلام کو سمجھے اور ’’شحنہ ہند‘‘ میں درج کردیا۔ بقول مثل۔ آپ سے آئے تو آنے دو۔ اور آئی تو رمائی۔ نہیں تو فقط چارپائی۔ اگر مرزا قادیانی میں خلوص اور تدین اور تقویٰ اﷲ ہوتا تو جو لوگ آپ کو ایک نیک نہاد بزرگ سمجھ کر مریدیا معتقد ہوئے تھے وہ کیوں آپ سے علیحدہ ہوجاتے اور کیوں تبرّا پڑھ کر آپ کے نام کا کتا پالنے سے بھی اب دریغ کرتے۔ ان کو تو تشنگی طلب لائی تھی مگر جب انہوں نے چشمۂ آب کی جگہ محض سراب دیکھا اور بجائے رہبری کے رہزنی محسوس کی تو اپنی سادہ لوحی پر نادم ہوئے اور آپ سے قطع تعلق کرنے کو عین تدین سمجھے اور گمراہی میں رہنا گوارہ نہ کیا ؎ اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہرد ستے نباید داد دست ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مرزائیت کی تاریکی سے نکل کر توفیق الٰہی کی روشنی میں آگئے ہیں جن کے خطوط ضمیمہ میں چھپ چکے ہیں۔ مرزا اور مرزائی جو اب دیں کہ ان لوگوں کے علیحدہ ہونے کے کیا وجوہ ہیں۔ آپ شاید کہیں کہ ’’ان میں کچھ شیطانی رگیں باقی تھیں۔‘‘ بھلا تمام شیطانی رگیں قطع نہ ہوجائیں تو مرزا قادیانی کے پاس آتے کیوں اور اب آئے تو کیا وہ رگیں پھر عود کر آئیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ مرزا قادیانی کے فیض صحبت کا اثر ہوا۔ یوں کہئے نا کہ کاٹھ کی ہانڈی ایک ہی دفعہ چڑھتی ہے۔ سادھو بچے ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے۔ ۴ … قادیانی کے عربی قصیدہ پر مصری ادیبوں کی رائے (گلزار ہند سے اقتباس) ’’المنار‘‘ مجریہ ۱۶؍شوال ۱۳۲۰ھ میں فاضل ایڈیٹر کی رائے کا خلاصہ دربار ’’اعجاز احمدی‘‘ حسب ذیل ہے۔