احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
احب البلاد کی طرف کیوں جھکیںوہ تو ابغض المواضع ومنارہ کی جس قدر پرستش کریں بجا ہے۔ الغرض مرزا قادیانی قولاً وعملاً اس امر کا کافی ثبوت دے رہے ہیں کہ بحکم آیت قرآنی معہ ذریۃ خود مجسم شرک وکفر ہیں ورنہ مومن باﷲ کی زبان سے بے ادبی اور توہین شعار الٰہی کی کب ہوسکتی ہے نہیں نہیں جبکہ تعظیم شعائر الٰہی بحکم ’’ومن یعظم شعائر اﷲ فانہا من تقویٰ القلوب‘‘ اہل تقویٰ کا شعائر اہل ایمان کا دثار ہے تو مرزائی ان کی تعظیم کس طرح کرسکتے ہیں۔ قال اﷲ تبارک وتعالیٰ ’’یوم یکشف عن ساق ویدعون الیٰ السجود فلا یستطیعون‘‘ جواب کافی دینے پر دس روپیہ انعام کا وعدہ البدر نمبر۴ جلد۱ میں مرزا قادیانی فرماتے ہیں کہ عبداﷲ آتھم نے پیشینگوئی کے پہلے دن رجوع کیا تھا چالیس مسلمان اور عیسائی گواہ ہیں۔ جواباً عرض ہے کہ اگر پہلے دن رجوع کرلیا تھا تو پندرہ ماہ تک اس کی موت کا کیوں انتظار کیا گیا اور ہر طرف مرزائی جماعت میں شوروغوغا کیوں پڑا رہا اور چار جانب سے مرزائیوں نے تار کی گھوڑ دوڑ کیوں جاری رکھی اور پندرہویں مہینے کے اخیر دن کے غروب تک قادیان میں مرزائیوں کا کیوں جھمیلہ رہا اور پیٹ پیٹ کر اور رو رو کر کیوں دعائیں مانگی گئیں۔ اگر مرزا قادیانی اس کا معقول جواب جس کو مخالفین مذہب تسلیم کرلیں۔ عطا کریں تو مبلغ ۱۰ روپیہ انعام۔ ورنہ لعنتہ اﷲ علی الکاذبین، والسلام علی من اتبع الہدی! ۲ … وہی حیات وممات مسیح مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی آیات قرآنی میں تحریف بالمعنے کرکے مسیحؑ کو اس لئے مارتے ہیں کہ اگر وہ زندہ ہیں اور مخبر صادقa کی بشارت کے موافق دنیا میں آئیں گے تو میں مسیح موعود نہیں ہوسکتا۔ لیکن آپ کا پیٹ پھر بھی خیالی پلائو سے نہیں بھرسکتا۔ آپ اور آپ کے چیلے گلے میں منا دی کا ڈھول ڈال کر عبث پیٹ پیٹ رہے ہیں۔ پھر آپ کی تحریف اور تاویل بھی دو کوڑی کی ہے۔ اس کی وجہ ایک تو خبط اور مالیخولیا اور فریب اور کید۔ دوم جہالت ہے۔ اگر کلام مجید کی بلاغت سے واقفیت ہوتی تو یہ ہذیان ہرگز نہ بکا جاتا۔ ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں آپ رفع روحانی بتاتے ہیں۔ یعنی روحانی بلندی یا رفع الدرجاتی۔ اول تو خود سیاق آیت اس معنے کے منافی ہے کیونکہ کلام مجید میں رفع سے جہاں کہیں رفع درجات