احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
۱… بقیہ مرزاقادیانی کے خیالات کا لیکچر سنو! اے ناعاقبت اندیش، تعصب کیش، نشتر حسد سے سینہ ریش، بدتر از گاؤ منیش، درخور لعنت پیش از پیش، بیخبر از یگانۂ وخویش مسلمانو! میں کب کہتا ہوں کہ تم میرے چھوٹے بھائیوں، دوسرے انبیاء خصوصاً اپنے پیغمبر عرب کو چھوڑ دو۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ جس طرح پیغمبر عرب نے ایک بڑی پولٹیکل حکمت عملی سے تمام انبیاء کو مانا اسی طرح تم بھی باستثناء مسیح سب کو مانو۔ کیونکہ مسیح کو نبی کہنا تو درکنار، وہ تو انسانیت سے بھی گرا ہوا تھا۔ اس کے خوارق ایسے تھے کہ ایک عام آدمی بھی ان سے نفرت کرے گا۔ اگر تمہیں میری بات کا یقین نہ ہو تو یہودیوں سے عیسیٰ مسیح کا کریکٹر پوچھ لو۔ باقی سب انبیاء مہذب انسان تھے۔ مگر اب ان کے ماننے کا زمانہ نہیں رہا۔ اب تو کسی انسان کا نبی بننا نہایت مشکل ہے۔ کیونکہ دنیا پر سائنس اور فلسفے کا قبضہ ہے۔ یورپ والے بڑے کائیاں ہیں۔ انہوں نے دنیا کو عقلمند بنا دیا ہے اور جن لوگوں میں کچھ وحشت وجہالت باقی ہے ان کو بھی مہذب اور عقلمند بنا کر چھوڑیں گے۔ اجوبہ پرستی زندہ درگور ہورہی ہے۔ صداقت اور صفائی پھیل رہی ہے۔ پس میں نے زمانہ کا رنگ دیکھ کر اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے اور دوسرے انبیاء کی طرح اپنے کو مبعوث من اﷲ قرار دیا ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی انسان اپنے کو خدا کا بھیجا ہوا صاحب الوحی والالہام نہیں بتاتا اور طرح طرح کی پالیسیوں سے ٹھونک نہیں رکھتا وحوش سیرت انسان اس کو نبی اور رسول تسلیم نہیں کرتے۔ کسی نے کہا میں مردوں کو زندہ، گونگوں کو شنوا، کوڑھیوں کو تندرست، اندھوں کو سوانکھا کرتا ہوں۔ کسی نے کہا میں اپنی لاٹھی کو اژدھا بناتا ہوں اور لاٹھی مار کر پتھروں سے چشمے نکالتا ہوں۔ وغیرہ! پس اے احمق کی بیٹ کھانے والے سادہ لوحو، اب ایسے بوستان خیال اور حمام گردبار کے فسانوں کے باور کرنے کے دن گئے۔ اگرلازاف نیچر یاسنت اﷲ معجزات پر جاری ہوتی تو وہ ہمیشہ ظہور میں آیا کرتے۔ کیا وجہ ہے کہ ہزاروں برس گزر گئے مگر کسی نے ویسے معجزات نہ دکھائے۔ کیا فطرت یا نیچر بالکل عقیمہ ہوگئی کہ ہزاروں برس پیشتر تو اس نے معجزات کے اس قدر بچے کھٹاکھٹ جنے اور اب توالد وتناسل کے دروازے پر قفل لگ گیا۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل ہے تو یہ نکتہ سمجھو گے کہ دوسرے انبیاء اور رسل کے عہد میں دنیا کس قدر اندھی اور وحشت وجہالت کے عمیق گڑھے میں گڑی ہوئی تھی کہ مذکورہ بالا لغویات پر ایمان لائی تھی۔ جن کو انسانی عقل ہرگز باور نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے فیلسوف اسلام پر مضحکے اڑا رہے ہیں کہ اسلام جس شے سے عبارت ہے۔ وہ مداریوں کے پھنک ایک اور پھنک دو کا تماشا ہے۔ سنو سنو! میں اگر چاہوں تو اپنے ہتھ ہیر اور داؤں گھات سے ویسے ہی بلکہ ان سے بڑھ