احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
گے کہ: ’’جری اﷲ الذی جاء فی حلل الانبیاء یا نزل فی حلل الانبیاء‘‘ تو علاوہ اس قدر محذوفات ماننے کے پھر بھی مبتداء اور خبر معرفہ ہی رہیں گے اور حصر لازم۔ ہم تو جب جانیں کہ ایڈیٹر صاحب الحکم ہمارے تمام ایرادات کو اٹھائیں۔ یہ نہیں کہ مرزاقادیانی کے حمقاء کے خوش کرنے کو دوچار سطریں لکھ دیں اور کہہ دیا کہ بس جواب ہوگیا۔ خوب یاد رکھئے کہ ہم مجدد السنہ مشرقیہ ہیں۔ ہمارے سامنے کسی کی پیری نہیں چل سکتی۔ انشاء اﷲ! آپ نے اب تک مائیاں مونڈی ہیں بابو نہیں مونڈا۔ قادیانی اونٹ منارے کے نیچے کھڑا کھڑا مینگنیاں کر رہا تھا۔ پہاڑ کے نیچے سے نکلا تو قدر عافیت معلوم ہوئی۔ باقی آئندہ، ایڈیٹر! M تعارف مضامین … ضمیمہ شحنۂ ہند میرٹھ یکم؍فروری۱۹۰۲ء کے شمارہ نمبر۵ کے مضامین ۱… بقیہ بے معنی الہام مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۲… منارۃ المسیح مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۳… مرزاقادیانی اور ان کے چیلوں کی لیاقت مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۴… اسلامی علماء سے ضروری التجاء مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۵… مرزائی الہام مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۶… خونی مہدی مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! اسی ترتیب سے پیش خدمت ہیں: ۱… بقیہ بے معنی الہام الحکم کا یہ کہنا کہ جری بمعنے رسول اﷲ یا وکیل اﷲ، یائی ہے مہموز نہیں۔ محض لچر وپوچ اور غیر مفید ہے۔ اس سے الہام جو بے معنی ہے بامعنی نہیں ہوسکتا۔ ہماری مراد بے معنی ہونے سے یہ ہے کہ مرزاقادیانی کے واسطے یہ الفاظ صحیح المعنے نہیں۔ نہ یہ کہ خود جری اﷲ بے معنی ہے۔ جری اگر مہموز ہوگا جب بھی مہمل نہیں۔ آخر جرأت کنندہ کے معنے رکھتا ہے۔ ہمارا مطلب یہ تھا کہ جری اﷲ کی اضافت لفظی ہے جو اپنے معمول کی طرف ہوتی ہے۔ اگر لفظ جری کا اﷲ معمول ہوگا تو وہی