احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہے چور ہوتا ہے۔ خدائے تعالیٰ کو آپ کی تخریب منظور تھی۔ اس لئے کسی بدروح نے آپ کو اطلاع دی کہ قادیان طاعون سے محفوظ رہے گا۔ آپ بدخو ہو کر بڑبڑا اٹھے۔ الٰہی کلام اور شیطانی آواز میں ذرا تمیز نہ کر سکے۔ اس تازہ جھوٹے الہام سے آپ کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل گئی۔ اسی طرح لاہور کے پنڈت اگنی ہوتری نے دعویٰ کیا تھا کہ میں ہائی سیویر (اعلیٰ نجات دہندہ) ہوں۔ یہ اس کے وج کی آخری ساعت تھی۔ اس کے بعد ایسا تاریکی میں گمنام ہوا کہ سوائے چند چیلے چاپڑوں کے لوگ اس کا نام بھی بھولتے جاتے ہیں۔ یونہی آپ کی حالت بھی نازک ہے۔ خدا نے آپ کو جب تک مہلت اور فرصت دی اور آپ کی بے جا حرکتوں پر تحمل کیا آپ ایک عرصہ سے سخت بیمار ہیں۔ بعض کے خیال میں آپ کو جذام بھی ہوگیا ہے۔ کب تک آپ جئیں گے اس عادل حقیقی کے حضور حاضر ہونا ہے۔ جس کا مقابلہ آپ کرتے رہے ہیں۔ سو اب توبہ کریں۔ وہ قبول کرے گا۔ ضرور معاف کرے گا اس کا فرمان ہے کہ جو میرے پاس آتا ہے۔ میں اس کو ہرگز نکال نہ دوں گا۔ فرمان المسیح ؎ توبہ کر اب بھی تو کہ در توبہ باز ہے‘‘ ۳… قادیانی کا انوکھا اصول علم کلام جب یونانی فلسفہ کی بنیاد پڑی اور اس کا دور دورہ ہوا اور مذہب اسلام سے مقابلہ ہونے لگا تو اس زمانہ کے علماء اہل اسلام رحمتہ اﷲ علیہم اجمعین نے اصول علم کلام ایجاد کیا اور اپنا دل ودماغ خرچ کر کے کتابیں لکھیں جس کے ذریعے سے بعض مسائل کو یونانی فلسفہ سے تطبیق دی اور جو اصول اس فلسفہ کے رکیک اور کمزور تھے ان کو بذریعہ علم کلام کے مسترد ومتروک کر دیا۔ مگر بمردود ہوا ایک نیا فلسفہ جاری ہوا جس کی بناء (برخلاف قیاسات وتوہمات) مشاہدہ اور تجربہ پر ہوئی۔ جس کا رخ تیرھویں صدی کے آخیر میں ہندوستان اور پنجاب کی طرف ہوا اور کل سرکاری اور قومی سکولوں اور کالجوں میں اس کی شاخوں کی تعلیم ہورہی ہے اور جس کی بدولت اس نظام عالم پر جس کو نامور حکیم بطلیموس نے قائم کیا تھا۔ طلباء ہنسی اڑا رہے ہیں۔ الحاصل جب تجربہ ومشاہدہ کے نظام عالم، زمانہ حال کے سائنس اور فلسفے نے یونانیوں کے اس وہمی اور قیاس فلسفہ کو باطل کر دیا تو وہ پرانا علم کلام بھی بے مصرف رہ گیا۔ ہمارے زمانہ کے علماء اسلام کا حقیقی فرض ہونا چاہئے تھا کہ حال کے سائنس وفلاسفی وغیرہ کے مقابلہ میں کوئی نیا علم کلام تیار کرتے اور جو اوہام وشکوک زمانہ حال کے لوگوں کے دلوں میں جاگزین تھے ان کے دور کرنے کی کوشش فرماتے۔ مگر کسی بزرگ نے ادھر توجہ نہ کی۔