احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
گناہوں کا کفارہ بن کر اس پر کھینچے جائیں گے اور پھر جہنم میں داخل ہوں گے۔ عیسیٰ مسیح تو عیسائیوں کے اعتقاد کے موافق دوزخ میں تھوڑی ہی دیر ہے۔ مثیل المسیح ابدالآباد تک رہیں گے۔ کیونکہ اصلی مسیح پر فوق لے جانا ضروری ہے۔ اصلی مسیح کا تو دوزخ میں کسی نے ساتھ نہ دیا۔ مگر مرزائی اپنے امام کا وہاں بھی ساتھ دیں گے۔ کیونکہ وہ اس کے عشق میں ہر دم سرشار اور ان کی زبان پر ہر لحظہ اس شعر کی تکرار ہے ؎ ساتھ تیرے ہم بھی چون سایہ مقرر جائینگے آگے جائیں پیچھے جائیں جائینگے پر جائینگے مرنے کے بعد مرزاقادیانی کے قول کے موافق کشمیر میں عیسیٰ مسیح تو قبر میں مدفون ہیں۔ مگر جب مثیل المسیح مریں گے تومنارے کے مندر میں ان کا بت رکھا جائے گا۔ تاکہ تمام مرزائی اور ان کی نسلیں پوجا کرتی رہیں اور بت کا نصب کرنا موجودہ مہذب زمانے کی تہذیب کا بڑا بھاری اقتضاء ہے اور مرزاقادیانی کی تو بہت ہی بڑی یادگار ہوگی۔ کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں تصویر پرستی کو رواج دیا ہے اور تمام مرزائیوں کے گھروں میں ان کی ایک ایک تصویر موجود ہے۔ پھر بھگوان کی کرپا سے مہادیوجی کی روح تو بت ہی آنند ہوگی کہ میرا اکلوتا پوت میرے چرنوں پر چلا اور مندر میں اپنی مورتی رکھوائی اور پھر مرزائی اور مرزائینین اس کے سبھی اعضاء کی پرستش کریں گے۔ آریوں نے تو عقلمند بن کر ان سوانگوں کو چھوڑ دیا۔ مگر مرزاقادیانی اور مرزائی ہنود کے مذہب کو زندہ کریں گے۔ کیا لغویات وواہیات اور کیا حماقت آمیز خرافات ہے۔ مرزائیوں کو ذرا شرم نہیں آتی کہ ایک دنیادار مکار عیار اپنی خود غرضی کی چالوں سے ان کو کیسا ناچ نچا رہا ہے۔ تمام مرزائیوں پر شیطان نے ایسا مسمریزم دم کیا ہے کہ سر تک نہیں ہلا سکتے۔ ’’اللہم احفظنا من فتنۃ الشیطان والدجال‘‘ مرزاقادیانی (الحکم مطبوعہ ۲۴؍جنوری ص۴ کالم اوّل) میں لکھتے ہیں: ’’اب وقت آگیا ہے کہ یہ طلسم (عیسائی مذہب) ٹوٹ جائے اور وہ بت جو صلیب کا بنایا گیا ہے گر پڑے۔‘‘ حق بزبان جاری۔ انشاء اﷲ ایسا ہی ہوگا۔ یہ منارہ صلیب کا بت نہیں تو کیا ہے جس پر صلیب یوں سوار ہے جیسے مرزا اور مرزائیوں کے سروں پر شیطان۔ منارہ کی صورت ایسی موافق بے ہنگم اور بے ڈول ہے۔ گویا عوج بن عنق کا سالاہے۔ ایڈیٹر! ۳… مرزاقادیانی اور ان کے چیلوں کی لیاقت اس میں شک نہیں کہ دارالطغیان قادیان حمقاء اور اسفہاء اور جہلاء کان پر وا ہے۔ منطق، فلسفہ، کلام، علم معانی وبیان، بلاغت وبدیع ان کو چھوا بھی نہیں گیا۔ عربیت کی قلعی کھل گئی۔