احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
شہادت حاضر ہوا تو آسمانی باپ نے کٹ سے یہ چو چوہاتا الہام ٹپکا دیا۔ ’’ساکر مک بعد التو ہین‘‘ (تذکرہ ص۴۷۹) یعنی میں توہین کے بعد تجھے بزرگی دوں گا۔ یہ الہام سنتے ہی راسخ الاعتقاد مرزائیوں کے عقیدے کی کڑھائی میں اذعان اور یقین کے گلگلے پکنے لگے۔ کہ بس فتح ہے۔ پانچوں گھی میں اور سر چولہے میں۔ یہ فقرہ ایسا بھدا اور بے ربط اور لچر ہے کہ ہدایت النحوا اور کافیہ پڑھنے والے طلبہ اس سے بہتر گھڑ لیتے ہیں۔ ا ٓپ فرماتے ہیں بعد التوہین۔ جب توہین کامل طور پر ہوچکی یعنی مولوی کرم دین کے استغاثے پر آپ کے نام وارنٹ نکلا تو اب اکرام کیسا؟ اور نہ صرف لے پالک کی بلکہ خود آسمانی باپ کی بھی توہین ہوچکی کیونکہ ضرب الغلام اہانۃ المولیٰ تو آسمانی باپ کو اب اس کے تدارک کی فکر بالکل فضول ہے۔ یوں کہئے تاکہ خود آسمانی باپ نے توہین کی اور پھر چمکا ردیا کہ میں نے بہت جھک مارا کہ ا نگریزی عدالت کے ہاتھوں تیری توہین کروائی۔ یہ وہی بات ہے کہ کوئی شخص کسی کی مرمت اور درگت کرے اور پھر قصور معاف کرانے لگے یہ تو عذر گناہ بدتر از گناہ بلکہ الٹا چڑانا ہوا۔ پھر توہین توہوئی تقریباً دس ماہ پیشتر اور اکرام ہوا۔ اب ذلت کی میعاد تو بھگتنی ہی پڑی۔ اگر کوئی قیدی اپنی دس ماہ کی مقررہ سزا بھگت کر جیل خانے سے نکلے تو کیا اس کی توہین اکرام سے بدلی جائے گی اور کلنک کا ٹیکا جو اس کے ماتھے پر لگ چکا ہے۔ وہ دھل جائے گا۔ الغرض بعد کے لفظ نے الہام کی مٹی خراب کردی۔ اگر آسمانی باپ کو زبان عرب سے کچھ بھی مس ہوتا تو یوں الہام کرتا ’’تو ہینک اکرامک‘‘ یعنی تیری توہین ہی درحقیقت اکرام ہے چونکہ ہر شے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ لہٰذا جس قدر بڑی توہین اسی قدر بڑا اکرام ہوا۔ توہین نہ ہوتی تو اکرام کی شان کیونکر معلوم ہوتی۔ پس توہین ہی درحقیقت اکرام ٹھہری۔ جائو کیا یاد رکھو گے مجدد نے ایسی فصیح وبلیغ اصلاح دی ہے کہ آسمانی باپ مان جائے گا گو لے پالک نہ مانے۔ (ایڈیٹر) ۴ … قادیان کے مقدمات نمائندہ سراج الاخبار جہلم اخبار وطن بحوالہ سراج الاخبار لکھتا ہے کہ ۱۳؍اگست سے اب تک عدالت رائے چند لال صاحب مجسٹریٹ درجہ اول ضلع گورداسپور میں یکے بعد دیگرے مقدمات پیش ہوتے رہے۔ جن کی مختصر کیفیت کا لب لباب یہ ہے کہ ۱۳؍اگست ۱۹۰۳ء کو حکیم فضل الدین بنام مولوی محمد کرم الدین صاحب کا مقدمہ سرقہ کتاب نزول مسیح پیش ہوا۔ اور بعد بیانات مستغیث اور شہادت