احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
اور اب خدائے تعالیٰ نے مجھ پر اس کے نزول کی منظوری بھیج دی ہے۔ اور جس طرح دنیا کی گورنمنٹیں ہمیشہ ایکٹ اور سرکلر وغیرہ منسوخ کرتی رہتی ہیں اور اپنے ہاتھوں کا عزل ونصب تقرر وتبدل حسب مصلحت وموقع وقت عمل میں لاتی رہتی ہیں۔ یہی کیفیت آسمانی گورنمنٹ کی ہے۔ الغرض اہل کشف اور اہل الہام جو چاہیں کریں وہ ہر طرح مختار ہیں۔ اندھے کی داد نہ فریاد اندھا مار بیٹھے گا۔ ایسی ہی حماقت آمیز باتوں سے دیگر مذاہب کی نظروں میں مذہب اسلام حقیر اور ذلیل اور پوچ نظر آتا ہے۔ الہام کا ڈربا سلامت ہے تو دیکھتے جائیے۔ کیسی کیسی ککڑوں کی صدائیں سننے میں آتی ہیں۔ مرزا قادیانی تو جو چاہے سوکہے۔ اس کو اسلام سے سروکار ہی نہیں۔ تعجب تو مولوی محمد حسین صاحب پر ہے کہ انہوں نے کسی ترنگ میں ایسا لکھ مارا جو مرزا کے لئے دستاویز ہوگئی۔ اگرچہ مرزا کا یہ دعویٰ ہے کہ میں مستقل نبی ہوں اور ہر ایک شریعت کو نسخ اور مسخ اور اپنے کشف والہام سے آئتوں اور حدیثوں کو صحیح یا غلط کرسکتا ہوں ۔ لیکن اس نے موضوع حدیثوں کے صحیح کرنے کے الزام کا جوأ مولوی بٹالوی کی گردن پر رکھ دیا ہے۔ کہ سب سے پہلے اس کے قائل وہی ہیں جو درحقیقت صاحب کشف والہام نہیں۔ پھر میں باوصف صاحب کشف والہام اور مستقل نبی ہونے کے کیوں اس کا قائل نہ ہوں۔ مجھ پر تو یہ واردات بروقت گزرتی رہتی ہیں۔ مولوی صاحب جو اپنے کو اہلحدیث کا لیڈر بتاتے ہیں۔ جب دیگر مذاہب والوں کو ان کا یہ اجتہاد معلوم ہوگا تو ضرور یہی کہیں گے کہ تمام اہلحدیث کا معاذ اﷲ یہی عقیدہ ہے۔ بات یہ ہے کہ جب انسان میں خلوص نہیں رہتا یا کسی خود غرض کے دھوکے میں آ جاتا ہے تو اس سے ایسی ہی حرکات سرزد ہوتی ہیں کہ اپنے ساتھ ساری سوسائٹی کو بدنام کر دیتا ہے۔ مذاہب غیر والے کہہ سکتے ہیں کہ مذہب اسلام کی باگ تو اسلامی علماء وفضلاء واولیاء اﷲ کے ہاتھ میں ہے کہ اسلام کی جس بات کو چاہیں رد کردیں اور جس بات کو چاہیں صحیح اور درست کردیں اور اس صورت میں اسلام خدائی مذہب نہیں۔ ’’انّاﷲ وانّا الیہ راجعون‘‘ ۶ … دین مرزائی مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! موجودہ زمانہ میں چونکہ مذاہب آزاد ہیں لہٰذا طرح طرح کے جدید مذاہب کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اکثر مذاہب میں ریفارمر (مجدد) بھی پیدا ہورہے ہیں۔ یہ زمانے کی ترقی کے آثار ہیں لیکن اصطلاح اور چیز ہے اور ترمیم اور نسخ اور چیز۔ مرزا قادیانی مسلمانوں سے سرخرو بننے اور ان کو دھوکا دینے کے لئے اپنے کو مجدد بتاتے ہیں اور حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’’ہر صدی پر مجدد فی