احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
انجام یہ ہوا کہ اسلام ہی نے آپ کو ہرطرف سے مردود کردیا۔ شیاطین زادوں کے اغواء سے جو بعض سیدھے سادھے بے لکھے پڑھے مسلمان راہ راست سے ڈگمگا جاتے ہیں تو رجال الغیب کی مدد اور جاذبۂ توفیق الٰہی سے پھر راہ راست پر آجاتے ہیں اور شیطان الانس اور تمام شیطان زادوں کا بیچ میں منہ کالا ہوجاتا ہے۔ مگر اس ایمانداری کو دیکھئے کہ مرزائی پرچوں میں بیعت کرنے والوں کے نام تو شائع ہوتے ہیں اور سینکڑوں آدمی جو بیعت پر لعنت بھیج کر از سر نو اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ جڑ سے ناک کٹتی ہے۔ پھر طرہ یہ ہے کہ جب مریدوں کی تعداد بتائی جاتی ہے تو بیعت فسخ کرنے والے مستثنیٰ نہیں ہوتے بلکہ بدستور قائم رہتے ہیں اور رجسٹر سے بھی ان کا نام خارج نہیں کیا جاتا اور کیسا ہی گھاٹا ہو مگر بارہا ہی بتایا جاتا ہے اور کاغذی نائو ہمیشہ جھوٹ ہی کے طوفان میں چلتی رہتی ہے مگر کب تک صداقت اور راست بازی ایسی شے ہے کہ انسان کو اپنا گرویدہ کرلیتی ہے۔ اور ہرگز اپنے قبضے سے نہیں نکلنے دیتی۔ پس جو لوگ کسی ہوکے میں آکر بیعت کرتے ہیں وہ بوجھ ناتجربہ کاری اور سادہ لوحی یا جہالت کے آپ کو حق پر سمجھ کر پیر یا نبی یا امام الزمان مانتے ہیں مگر چونکہ واقع میں آپ ایک دنیا پرست مکار ہیں۔ لہٰذا چند روز میں لفافہ کھل جاتا ہے اور مطلب سعدی پڑھ کر سب ففرو ہوجاتے ہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیں۔ آ پ کو اپنا پیشوا سمجھیں اور چند روز میں انگوٹھا دکھا کر رخصت ہوجائیں اور پھر آپ کے نام کا کتا بھی پالیں یہ ایک ایسی بدیہی بات ہے جس سے ہر شخص پر آپ کی مکاری تھوڑی سے تامل کے بعد کھل سکتی ہے۔ جو شخص کسی سے بیعت کرتا ہے وہ خدا اور رسول کو بیچ میں ڈال کر ایک قسم کا معاہدہ کرتا ہے۔ جس کا توڑنا امراہم جانتا ہے لیکن کوئی بات تو مکار مرشد میں ایسی دیکھتا ہے جو معاہدہ فسخ کرنے پر مجبور کردیتی ہے حالانکہ اس نے بیعت اس واسطے نہ کی تھی کہ مجھے ایک روز اس کو توڑنا پڑے گا۔ بات کرنے میں رقیبوں سے ابھی ٹوٹ گیا دل بھی شاید اسی بدعہد کا پیمان ہوگا ۶ … مرزائیوں کے مکائد مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! کچھ عرصہ ہوا کہ شاہجہان پور میں خدا جانے کہاں کا خدائی خوار ایک پنجابی مرزائی آ نکلا جس کا بیان تھا کہ میں صرف مرزا قادیانی کے مذہب کی اشاعت کے لئے سیروسیاحت کرتا ہوں۔