احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
سے ضمیمہ کے ناظرین اچھی واقف ہیں۔ ہم وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ تمام مرزائی علوم وفنون سے ویسے ہی کورے ہیں جیسے مرزاقادیانی سچی پیشین گوئیوں سے۔ ضمیمہ میں نظم ونثر دونوں کی قلعی کھل چکی ہے۔ ۲… بے معنی الہام اگر برق طفلی بشیر والے الہام کے یہ معنی کئے جائیں کہ اے میرے بیٹے بشیر آنکھیں کھول یا تیز دیکھ تو علاوہ اس خرابی کے کہ بشیر خدا کا بیٹا نہیں بلکہ خدا کے بیٹے کا بیٹا ہے۔ طرفہ خرابی یہ لازم آتی ہے کہ لغت میں طفل کے معنی بیٹے کے نہیں ہیں بلکہ نوزائیدہ کے ہیں۔ انسان کا ہو یا حیوان کا۔ اونٹ کا بوتا ہو یا گائے کا بچھڑا۔ بکری کا بزغالہ ہو یا بھینس کا کٹڑا یا ہاتھی کا پاٹھا۔ مذکرہو یا مؤنث۔ نر ہو یا مادہ گویا یہ معنی ہوئے کہ اے میرے پہلے جھول یا پہلے گابھ کے نکلے ہوئے بچے آنکھیں کھول۔ حالانکہ بشیر بالغ ہے نوزائیدہ نہیں۔ نہ گہوارے میں ہے ابھی ابھی اس کی شادی ہوئی ہے اور اگر آسمانی باپ نے بشیر کو درحقیقت اپنا صلبی بیٹا قرار دیا ہے تو اس سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ الہام میں ابنی بشیر نہیں کہا۔ اگر آسمانی باپ مجدد السنہ مشرقیہ سے مشورہ لیتا تو یوں اصلاح دی جاتی۔ ’’برق ابن المتبنّٰی بشیر‘‘ یعنی اے میرے لے پالک کے بیٹے بشیر آنکھیں کھول۔ غالباً آسمانی باپ نے یہ خیال کیا کہ اس الہام میں ابن یا متبنے کا لفظ نہ آنے پائے۔ ورنہ سارے مرزائی عیسائی بن جائیں گے اور جب میری صلب سے ایک حقیقی بیٹا پیدا ہوچکا ہے تو کیوں کسی کو ابن یا ابن الابن بناؤں۔ یہ امر میرے حقیقی بیٹے کی دلشکنی کا باعث ہوگا اورمیں شرک فے الابنیۃ کے جرم کا مرتکب ٹھہروں گا۔ الہام میں حرف ندا محذوف ہے۔ یعنی برق یا طفلی بشیر۔ اب سنئے نحوکا قاعدہ ہے کہ جب منادیٰ مضاف ہوگا تو منصوب ہوگا۔ جیسا یا عبداﷲ! یہاں طفلی منادیٰ منصوب ہے۔مگر اس کا تابع (بشیر) مرفوع ہے۔ یہ کون سی خانگی کتاب میں لکھا ہے۔ پس بشیراً آنا چاہئے۔ پھر برق کے معنی مطلق تیز یا اچھا دیکھنے کے ہیں۔ لغت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ جب کسی کی دکھتی ہوئی آنکھیں اچھی کی جائیں تب کہا جائے کہ برق۔ اس کو اپنی کسی لال کتاب سے ثابت کیجئے۔ ثابت کر چکے۔ دربارہ طاعون آسمانی باپ کا یہ الہام ہے۔ ’’انی احافظ کل من فی الدار‘‘ یعنی