احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
دست کرم کشادہ کریں گے اور چندے کی فہرست شائع ہونے لگے گی۔ حسبنا اﷲ ونعم الوکیل۔ (ایڈیٹر) ۵… مرزائی الہام کروڑوں آدمی مرزا قادیانی کو جانتے بھی نہیں کہ یہ کس جانور کا نام ہے اور اس بے دال کے بودم کا گھونسلا کہاں ہے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی جو مرزاقادیانی کے ہتھکنڈوں سے واقف ہیں۔ اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ان میں سے باوصف منکر ہونے کے نہ تو کسی کی نسبت ہاویہ میں گرائے جانے کی کبھی پیشین گوئی ہوئی ہے نہ کسی قسم کے عذاب کی، نہ ہلاکت کی۔ آخر منکر تو سبھی ہیں اور اب تو دو سال سے الہام کا بالکل ڈربا ہی پھک گیا۔ ککڑوں کوں کی بھی آواز نہیں آئی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ اوّل تعزیرات کی دفعہ تخویف نے مرزا قادیانی کو خوف کے شکنجے میں کچھ ایسا کھینچا کہ اس کا خدا بھی بوکھلا گیا۔ سہم گیا۔ ستھنی میں خطا ہوگیا۔ گھگھی بندھ گئی۔ پس الہام کے نام چون بھی نہیں نکلتی۔ اسے اندیشہ ہوا کہ تخویفی الہام کے ارتکاب میں کہیں میں بھی مرزاقادیانی کے ساتھ نہ دھرا جاؤں کیونکہ برٹش گورنمنٹ بڑی سطوت وحیرت والی جبار وقہار گورنمنٹ ہے۔ دوم… جب کوئی پیشین گوئی پوری نہ ہوئی اور تیرتکون کی وہ بھرمار ہوئی کہ ترکش خالی ہوگئے اور ایک بھی نشانہ پر نہ لگا تو مرزا جھونجھل میں آکر خود اپنے خدا کو چھوڑ بیٹھا اور الہام کی ڈیوٹی سے مستعفی ہوگیا کہ چندیں مدت خدائی کر دی۔ گاؤ خرراں شناختی اور بقول غالب ؎ زندگی اپنی اسی طور جو گزری مرزا ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے سوم… مرزاقادیانی کا خدا کچھ ایسا پوچ۔ بزدلا۔ ہول دلا نکلا کہ جو سادہ لوح مسلمان موت کی پیشین گوئی کی دھمکی میں آگئے۔ ان کو تو چھاتی سے لگا لیا اور جو دھمکی کی اکڑفوں میں نہ آئے اور اٹھارہواں بچکانہ ہاتھ میں لے کر کھوپڑی کی چندیا کے سر ہوگئے۔ مرزاقادیانی کا خدا ان کے خوف سے چوہے کے مٹکے میں جا دبکا۔ چنانچہ وہ لوگ جو مرزاقادیانی کے سبز باغ پر فریفتہ ہوکر گانٹھ کٹوا بیٹھے تھے اور پھر ہوش میں آگئے۔ اب مرزاقادیانی کے کٹے حریف میں مگر مرزاقادیانی کا خدا بے کس بے بس ہوکر گونگے کا گڑ کھائے بیٹھا ہے اور ان کاروان بھی نہیں اکھاڑ سکتا۔ چہارم… مرزاقادیانی کی نبوت کا معیار صرف لوگوں کا اس کی تخویف کی دھونس میں آجانا ہے۔ چنانچہ جب آتھم والی پیشین گوئی پٹ پڑی تو مرزاقادیانی نے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ اس کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ مگر مرزائی نہ بنا۔ بدستور عیسائی ہی رہا۔ تخویف کا لٹکا تو بہت خاصہ تھا۔ مگر افسوس