احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
بالآخر امام الزمان اور خاتم الخلفاء یعنی خاتم الانبیاء بننے کے مدعی ہیں۔ لہٰذا ایک لاکھ آدمی تو بہت ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ تو دس ہزار آدمیوں کا ہونا بھی گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے کیونکہ جو شخص مرزا قادیانی پر ایمان نہ لائے اسے واجب القتل سمجھتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ گورنمنٹ بھی ان کے منکروں میں سے ہے۔ پس اس کا انجام جو کچھ ہوگا عاقبت اندیش اہل الراء اس کو خوب سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے مرزا قادیانی کے میموریل کو اس نوٹ کے عنوان میں ان کے گلے کے لئے استروں کی مالا لکھا ہے۔ مجدد کی پیشینگوئی کے پورا ہونے کے سامان نظر آرہے ہیں اور وہ ضرور پوری ہوگی۔ انشاء اﷲ۔ ۳ … اٹھارہ برس کا خواب آج دیکھ رہے ہیں مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی کے اسی جان نثار اور فدائی نے چند اشعار شائع کئے ہیں جو دسمبر ۱۸۸۶ء کے ’’شحنہ ہند‘‘ میں مولوی محمد یحییٰ کشمیری کی طرف سے مرزا قادیانی کی مدح میں شائع ہوئے تھے مگر کجا ۱۸۸۶ء اور کجا ۱۹۰۳ء۔ اول تو مرزا قادیانی ۱۸؍برس قبل بروزی نبی اور خاتم الخلفاء نہ بنے تھے اس زمانہ میں تو آپ صرف آریا کا تعاقب فرما رہے تھے اور کوئی مسلمان آپ کا مخالف نہ تھا بلکہ بعض نیک سیرت پاک نیت مسلمان آپ کے مرید ومعتقد اور محض سادہ دلی اور بھولے پن سے سانپ کے ظاہری خوش نما رنگ پر فریفتہ ہوگئے تھے۔ مگر مرزا قادیانی نے کینچلی اتار کر دوسری کینچلی بدلی تو زہر کھل گیا اور سب خوفناک ہوکر اور لاحول پڑھ کر علیحدہ ہوگئے۔ قادیان میں صرف چند اپاہج، پیران نمے پرند مریدان مے پرانند والے باقی رہ گئے۔ دوم! اخبار میں نامہ نگاروں کی طرف سے ہر قسم کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ایڈیٹر کے عقائد کو ان سے کیا تعلق؟ سوم! وہ اشعار ایسے تھے کہ ہر شاعر شاعرانہ ترنگ میں خود اپنی ذات کو ان سے متصف کرسکتا ہے چہ جائیکہ غیروں کو۔ ایک شعر یہ تھا۔ مسیحا را مشابہ درکمال فیض روحانی محمد راتبیع وخادم دین ازدل وجان شد اس زمانہ میں تو آپ مسیح کے مشابہ تھے مگر اب ان سے بدرجہا بڑھے ہوئے ہیں۔ بلکہ عیسیٰ مسیح میں (معاذ اﷲ) بہت سے عیوب ہیں اور ان کے مقابلہ میں خود بدولت بالکل معصوم ہیں۔ اس زمانہ میں آپ تبیع (تابعدار محمد) تھے اب بروزی محمد یعنی بعینہ محمد ہیں گویا غلام سے آقا بن گئے۔ جب مبصر مسلمانوں نے آنکھیں کھول کر یہ کیفیت دیکھی تو مندرجہ ذیل شعر پڑھا ؎