احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
جانب سے ایک جزوی دعویٰ (آمین بالجہر) کا تھا اور وہ بھی شاذونادر شہروں میں۔ تمام مقلدین اور علماء مقلدین خوب جانتے ہیں کہ آمین بالجہر سنت رسول اﷲ ہے ورنہ امام شافعی وغیرہ ائمہ اس کے کیوں عامل ہوتے ہیں اور سینکڑوں شہر ایسے ہیں جہاں آج تک مقلدین اور اہلحدیث کے مابین آمین بالجہر وغیرہ پر کبھی جھگڑا نہیں ہوا اور فریقین ایک ہی مسجد اورایک ہی جماعت میں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ خود جامع مسجد دہلی میں جاکر جس کا جی چاہے دیکھ لے۔ پس یہ ایک فروعی اختلاف ہے نہ کہ اصولی۔ اہلحدیث نے خدانخواستہ کوئی نیا نبی نہیں گھڑا۔ نہ اصول اسلام کو مرزا قادیانی کی طرح برہم کیا۔ انہوں نے توصرف ’’نبی امی وما ینطق عن الہوی‘‘ کے اتباع اور کتاب وسنت پر عمل کرنے کے لئے زور دیا۔ اہلحدیث اور مقلدین توحید ورسالت پر یکساں ایمان رکھتے ہیں اور ارکان اربعہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کو فرض جانتے ہیں اور ان کے منکرکو کافر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مرزا قادیانی نے چاروں اصول میں ترمیم بلکہ قطع برید اور چھانٹ چھونٹ کردی اور توحید ورسالت کو بھی کھو دیا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ پس حنفی مقلدین کے دعویٰ میں جو انہوں نے اہلحدیث پر کیا اورمرزائیوں کے دعویٰ میں جو انہوں نے کپور تھلہ کے سنیوں پر کیا زمین وآسمان کا فرق ہے اورفریقین مرزا کی تکفیر میں یکساں متفق ہیں۔ امید نہیں کہ باخبر عدالت اس دھوکے میں آئے۔ باقی آئندہ ۔ (ایڈیٹر) ۲ … اہلحدیث اور اہل قرآن اور مرزا قادیانی کا دخل در معقولات مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! اہلحدیث واہل قرآن میں چند روز سے بحث ہورہی ہے۔ اہل قرآن کہتے ہیں کہ صرف قرآن واجب العمل ہے۔ اہلحدیث کہتے ہیں کہ حدیث بھی مثل قرآن ہے۔ مرزا قادیانی کو تو نہ حدیث سے غرض نہ قرآن سے آپ خواہ مخواہ دونوں کے بیچ میں کیوں کھورولائے اور وہ بھی اس طرح کہ ایک کچلی اہلحدیث کو دکھائی توباچھیں چیر کر دوسری تیز کچلی اہل قرآن پر چلائی۔ آپ تو حدیث اور قرآن دونوں کو استعفیٰ دے چکے ہیں کیا معنی کہ جب خود نبی بن گئے تو قرآن وحدیث دونوں مسترد ہوگئے۔ پھر ان کا ذکر ہی کیا۔ آپ فرماتے ہیں فریقین افراط وتفریط کی جانب گئے ہیں۔ ترکستان کی جانب۔ جیسا کہ سعدیؒ فرما گئے ہیں