احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہماری رائے میں تو قادیان سے تمام خوگیر کی بھرتی چھانٹ دینی چاہئے۔ بھلا یہ انسانی صورتیں جو درحقیقت مٹی کی مورتیں ہیں۔ جب لکھنے پڑھنے چلنے پھرنے کے کام کی نہیں تو کس مرض کی دارو ہیں۔ ان سب کا راتب موقوف کرکے رجسٹر میں صرف امروہی صاحب کا نام درج کردینا چاہئے۔ اور اس بچت کا کچھ حصہ غریب ایڈیٹر الحکم کو بھی ملنا چاہئے۔ مقدمات میں مارا مار سر گاڑی پائوں پہئے بنایہ پھرا۔ مرکز سے اخبار اس کا گرا۔ سیلاب کے ریلے میں گھرا اس کا بہا۔ غضب ہے نا ایسے نمک حلال جان نثاروں کی قدر نہ کی جائے اور مفت خوروں اپاہجوں کو جو زندہ پیر کے مجاو ربنے بیٹھے ہیںاور دونے ڈکار رہے ہیں۔ راتب اور مسالہ کھلایا جائے۔ غریب ایڈیٹر الحکم پیروی مقدمات کی چھپٹ میں آکر اس کوٹھی کے دہاں اس کوٹھی کرنے سے بھی گیا گزرا۔ کیا معنی کہ وہ شحنہ ہند بغل میں دبا کر امروہی صاحب ہی کے پاس آتا ہے کہ اس میں آپ کے مضمون کی چتھاڑ ہے۔ جواب دیجئے وہ ویسے بھی کسی ضرورت کے وقت امروہی صاحب ہی سے مضمون کی التجا کرتا ہے۔ ملّا کی دوڑ مسجد تک ۔ الغرض امروہی صاحب مرزائی مشن کے فرد کامل ہیں جو کچھ ان کی قدر افزائی کی جائے کم ہے۔ ان کے بعد اندھیرا اور چراغ گل، پگڑی غائب۔ مگر مجدد السنہ مشرقیہ کے سامنے ان کی سٹی بھی گم ہوجاتی ہے۔ کئی ردے فاضل ان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ ایک کا بھی جواب نہیں۔ لیچڑ اور پوج جواب دیں گے تو اضافہ کیسا اصلی راتب بھی بند ہوجائے گا۔ ۴ … ۱۹۰۳ء کا اختتام مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ارے مربیان ومعاونان شحنۂ ہند وضمیمہ ۳۶۰؍دن جو کوندتی ہوئی بجلی یا ڈھلتی ہوئی چھائوں کی طرح گزر گئے۔ کوئی نظر فریب تماشا تھایا عبرت انگیز طلسم یا خواب وخیال ہم کو تو کچھ معلوم نہیں کیا تھا۔ این صورت وہمی طلسم امکان خوابے است کہ درخواب بہ بینی آنرا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ۳۶۰؍دن جو حوادث ومصائب کا لشکر اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اور دنیا میں شادی وغم، موت وحیات کا ہنگامہ گرم کررکھا تھا۔ انسانوں کی طباع میں تلاطم، خیالات میں تموج۔ نفوس میں تہج۔ سروں میں ہوا وہوس کا سودا۔ دلوں میں نفسانی خواہشوں کے