احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
بمثل ہذا البرہان لایحا حجوبہ ولو کان بعضہم لبعض ظہیراً نصیراً فاذا جآء وعدنا والتقی الجمعان ذالک یوم السرور۔ یوم یصطف المجنون علی المائدہ امام انا میر متکئین فیہا علی کراسی مصفوفہ فی حجور القصور تدور علیہم کہلان مستخدمون بنفائس الاغذیۃ وفواکہ مما یشتہون وخندریس عتیق لایقابل عنہم المائدہ ولا ہم عنہا بمزحزحین ینالک فیتدبر الذین کفروا ای مرصدیر صدون‘‘ اس بے تکے پن کو دیکھئے اور اس نقالی وجعل کو۔ اس نے قادیانی سے مرجعیت بہم پہنچائی تھی۔ خوب خوب سورے تصنیف فرمائے تھے مگر پھر بھی عربی زبان بخوبی جانتے تھے۔ قادیانی کی طرح کندہ ناتراش نہ تھے کہ بے سروپا باتیں ہانکتے۔ اس نے تفسیر بھی لکھی تھی مگر زبان درازی کی عادت نہ تھی۔ شراب پیتا تھا آخر ایک روز کانٹا لگا اور مرگیا۔ بعض کہتے ہیں گھوڑے سے گرا اور مرگیا مجھے اس کی تحقیق نہیں کہ اصل اس کی کیا تھی۔ لکھنؤ میں بھی ایک شخص محمد ادریس نامی کہ اصلی نام ان کا غلام محمد ہے۔ مدعی نبوت ہیں۔ بعض مجتہدین لکھنؤ سے انہوں نے عبرانی وعربی پڑھی معقولات وادب وتواریخ ورجال وسیرمیں دستگاہ کامل حاصل کی۔ بعد کو بے چارے مراق میں مبتلا ہوئے۔ اب گلیوں گلیوں ’’کلیسیا حق والدیر حق والمسجد حق والوید والفرقان والکتب العتیقۃ حق‘‘ کہہ کے صلح کل کا جھنڈا گاڑتے پھرتے ہیں۔ سورے تصنیف کرتے اور اپنے مریدوں کو سناتے ہیں۔ مگر عارضہ مراق نے ان کا بازار کھوٹا کردیا ورنہ ادریس (کہ ادریس ہی ہونے کا ان کو دعویٰ ہے) کے بجائے ابلیس کا کام انجام دیتے۔ تاہم بوجہ علم وقربت اگر ہم کو کسی نبی کی ضرورت ہوتی تو ہم یقینا بجائے غلام احمد قادیانی کے غلام محمد لکھنوی کو پسند کرتے کیونکہ ان سے ۲۹؍حصے علم وفضل میں زیادہ ہے۔ میں دیکھتا ہوں قادیانی کا دماغ آخر خشک ہوتے ہوتے اس کو مختل کردے گا۔ وﷲ الحجۃ البالغہ! تعارف مضامین … ضمیمہ شحنۂ ہند میرٹھ سال ۱۹۰۳ء ۲۴؍اکتوبر کے شمارہ نمبر۴۰؍کے مضامین اس شمارہ ۴۰؍کے ابتدائی ساڑھے چار صفحے مباحثہ شاہجہان پور کی اس کارروائی کے